پشاور ایئر پورٹ پر حملے میں ذلت آمیز ناکامی کے بعد دہشت گردوں نے تمام
مذہبی اور اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بے گناہ پولیو ورکرز کے قتل
عام کی جو مہم شروع کی ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ اس
مجرمانہ مہم کا پس منظر کیا ہے؟ کیا حملہ آور یہ چاہتے ہیں کہ ہماری اگلی
نسل میں پولیو جیسی خطرناک اور تباہ کن بیماری کے اثرات باقی رہیں یا اس پر
بھی وہ کچھ مذہبی تحفظات رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جن لوگوں نے خود کو عقل کل
سمجھ کر مذہب کو بھی اپنی ذاتی ملکیت بنا لیا ہے ان کے بارے میں کچھ بھی
کہا جا سکتا ہے لیکن دنیا کا کوئی مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ
دنیا میں آنے والے معصوم بچوں کی زندگیوں کے لیے بھی خطرات پیدا کر دیں۔
پشاور ایئر پورٹ پر حملے کے حوالے سے خیبر پختوانخواہ کے سینئر وزیر بشیر بلور کا یہ بیان محل نظر ہے کہ حملہ آوروں نے یہ حملہ فوج کی اصطلاح میں ’’ آل آؤٹ اٹیک‘‘ کی طرح کیا تھا۔ جس کو مختلف مراحل میں تقسیم کر کے یہ حکمت عملی اپنائی گئی تھی کہ سب سے پہلے ایک گروپ پشاور ایئر بیس پر کنٹرول حاصل کرے گا۔ جس کے ساتھ ہی دوسرا گروپ ٹی وی سٹیشن پر قبضہ کر لے گا جس کے بعد چھپے ہوئے حملہ آور مختلف اطراف سے حملہ کرتے ہوئے شہر میں داخل ہو جاتے۔ حملہ آوروں کی تعداد سینکڑوں میں بھی ہو سکتی تھی اور جو دہشت گرد اس حملے کے اگلے روز مارے گئے تھے وہ بھی انہی حملہ آوروں کی باقیات تھے۔ گو کہ معمول کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس مرتبہ کچھ نئے انکشافات بھی ہوئے ہیں۔ مرنے والے دہشت گردوں کی پشت پر کھدے ٹیٹوز کی شیطانی شبیہہ اور اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کا تعلق آذربائیجان اور داغستان سے ہے۔ اطلاعات کے مطابق جن دہشت گردوں کی حملے کے اگلے روز ایک زیر تعمیر مکان میں موجودگی کی اطلاع پولیس کو شہریوں نے دی تھی ان پر بھی شہریوں کو اس لیے شک ہوا کہ وہ شکل سے تو پٹھان لگتے تھے لیکن ایسی اجنبی زبان میں باتیں کر رہے تھے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں سنی تھی۔ ایک چینل کی ٹیم جو اطلاع ملنے پر جائے وقوعہ کی طرف جا رہی تھی وہ بھی ان دہشت گردوں کے نرغے میں آگئی اور بمشکل جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔
سکیورٹی فورسز نے جرأت اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے عزائم تو ناکام بنا دیے اور پشاور ایئر پورٹ کو سترہ گھنٹے بعد آپریشنل کر دیا لیکن تب سے اب تک خیبر پختوانخواہ میں دہشت گردوں نے ادھم مچا رکھا ہے اور تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی نئی واردات کررہے ہیں۔ جس میں راہ چلتے لوگوں پر دستی بم پھینکنا، پولیو ورکرز کا قتل جیسے گھناؤنے واقعات بھی شامل ہیں۔
ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے یہاں غیر ملکی دہشت گردوں کی نئی کھیپ آگئی ہے جسے دوسرے ممالک میں تربیت دے کر دہشت گردی کے لیے پاکستان میں لانچ کیا گیا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ الزام دنیا پاکستان پر لگاتی ہے کہ یہاں سے دہشت گردی دنیا میں پھیلائی جا رہی ہے جبکہ زمینی سچائی یہ ہے کہ ساری دنیا کے دہشت گردوں نے مل کر پاکستان پر حملہ کر دیا ہے۔ یہ دہشت گرد کہاں سے سفر کرتے ہیں، کہاں پہنچتے ہیں اور کیسے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے آنے والا دہشت گرد براہ راست افغانستان میں داخل ہوتا ہے آج بھی افغانستان ان کے لیے محفوظ ترین پناہ گاہ ہے۔ جہاں ان کا استقبال کرنے کے بعد ان کی تربیت مکمل کر کے انہیں اسلحہ، گولہ بارود سے لیس کر کے پاکستان میں دھکیلا جاتا ہے۔ حیرت ہے افغانستان جہاں امریکہ نیٹو اور ایساف کی فوجیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اکٹھی کی گئی ہیں وہاں دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں۔ اس سلسلے کی اہم مثال مولوی فضل اللہ کی ہے۔
مولوی فضل اللہ کسی نہ کسی طرح سوات سے جان بچا کر نکلا تو اسے بھی مشرقی افغانستان (کنٹر) میں پناہ ملی۔ جہاں اسے محفوظ ٹھکانہ، عیش و آرام، اور ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے۔ ملا فضل اللہ کی موجودگی کے حوالے سے پاکستان کئی مرتبہ اپنے تحفظات سے قابض افواج کو آگاہ کر چکا ہے۔ افغان حکومت کوباقاعدہ سفارتی سطح پر شکایت کی جا چکی ہے اور اس مرکز سے پاکستان پر حملے معمول بن چکے ہیں لیکن امریکہ، افغانستان، نیٹو نے اس ضمن میں پاکستان سے معذرت کر لی ہے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ امریکن مولانا حقانی گروپ کے خلاف پاکستان آرمی کا ایکشن چاہتے ہیں جبکہ حقانی گروپ نے کبھی پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کی نہ پاکستانی سکیورٹی کے لیے مسائل کھڑے کیے ہیں اور نہ ہی ان کا پاکستان میں کوئی ٹھکانہ ہے۔ وہ افغان شہری ہیں اور طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان سے کارروائیاں کرتے ہیں۔ البتہ کچھ افغانوں کے بیوی بچے ضرور وزیرستان میں موجود ہیں جن کے خلاف کارروائی کا کوئی جواز نہیں بنتا لیکن امریکنوں نے پاکستان کو اس ’’گستاخی‘‘ کی سزا دینے کے لیے ملا فضل اللہ کی سرپرستی شروع کر دی ہے اور باور کیا جاتا ہے کہ جو غیر ملکی دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوتے ہیں وہ ان ہی مراکز پر تربیت اور اسلحہ حاصل کرنے کے بعد یہاں آتے ہیں اور انہیں اگر مکمل پشت پناہی نہیں تو کم از کم امریکنوں کی ’’نظر انداز کر دینے کی‘‘ پالیسی کا سامنا رہتا ہے۔ یہ لوگ جس راستے سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں جس راستے سے واپس جاتے ہیں اس پر نیٹو اور امریکہ کا کنٹرول ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے امریکن افغانستان سے رخصتی سے پہلے اس خطے کی جغرافیائی اور زمینی سچائیوں کو بدلنے پر تلے ہیں۔ کیونکہ سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ افغانستان کے جہاں جہاد یا فساد اسے کوئی بھی نام دیا جائے، ہو رہا ہے اس میں پاکستان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکنوں کی براہ راست طالبان سے گفت و شنید اور سودے بازیاں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اگر وہ پاکستان کو اس گفتگو کا حصہ نہیں بناتے۔ جہاں تک دہشت گردی کے دباؤ کا تعلق ہے تو یہ حربے اب پاکستان پر آزمائے نہیں جا سکتے کیونکہ عوام کو بھی برے بھلے کی تمیز ہونے لگی ہے۔
پشاور ایئر پورٹ پر حملے کے حوالے سے خیبر پختوانخواہ کے سینئر وزیر بشیر بلور کا یہ بیان محل نظر ہے کہ حملہ آوروں نے یہ حملہ فوج کی اصطلاح میں ’’ آل آؤٹ اٹیک‘‘ کی طرح کیا تھا۔ جس کو مختلف مراحل میں تقسیم کر کے یہ حکمت عملی اپنائی گئی تھی کہ سب سے پہلے ایک گروپ پشاور ایئر بیس پر کنٹرول حاصل کرے گا۔ جس کے ساتھ ہی دوسرا گروپ ٹی وی سٹیشن پر قبضہ کر لے گا جس کے بعد چھپے ہوئے حملہ آور مختلف اطراف سے حملہ کرتے ہوئے شہر میں داخل ہو جاتے۔ حملہ آوروں کی تعداد سینکڑوں میں بھی ہو سکتی تھی اور جو دہشت گرد اس حملے کے اگلے روز مارے گئے تھے وہ بھی انہی حملہ آوروں کی باقیات تھے۔ گو کہ معمول کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر اس مرتبہ کچھ نئے انکشافات بھی ہوئے ہیں۔ مرنے والے دہشت گردوں کی پشت پر کھدے ٹیٹوز کی شیطانی شبیہہ اور اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کا تعلق آذربائیجان اور داغستان سے ہے۔ اطلاعات کے مطابق جن دہشت گردوں کی حملے کے اگلے روز ایک زیر تعمیر مکان میں موجودگی کی اطلاع پولیس کو شہریوں نے دی تھی ان پر بھی شہریوں کو اس لیے شک ہوا کہ وہ شکل سے تو پٹھان لگتے تھے لیکن ایسی اجنبی زبان میں باتیں کر رہے تھے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں سنی تھی۔ ایک چینل کی ٹیم جو اطلاع ملنے پر جائے وقوعہ کی طرف جا رہی تھی وہ بھی ان دہشت گردوں کے نرغے میں آگئی اور بمشکل جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔
سکیورٹی فورسز نے جرأت اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے عزائم تو ناکام بنا دیے اور پشاور ایئر پورٹ کو سترہ گھنٹے بعد آپریشنل کر دیا لیکن تب سے اب تک خیبر پختوانخواہ میں دہشت گردوں نے ادھم مچا رکھا ہے اور تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی نئی واردات کررہے ہیں۔ جس میں راہ چلتے لوگوں پر دستی بم پھینکنا، پولیو ورکرز کا قتل جیسے گھناؤنے واقعات بھی شامل ہیں۔
ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے یہاں غیر ملکی دہشت گردوں کی نئی کھیپ آگئی ہے جسے دوسرے ممالک میں تربیت دے کر دہشت گردی کے لیے پاکستان میں لانچ کیا گیا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ الزام دنیا پاکستان پر لگاتی ہے کہ یہاں سے دہشت گردی دنیا میں پھیلائی جا رہی ہے جبکہ زمینی سچائی یہ ہے کہ ساری دنیا کے دہشت گردوں نے مل کر پاکستان پر حملہ کر دیا ہے۔ یہ دہشت گرد کہاں سے سفر کرتے ہیں، کہاں پہنچتے ہیں اور کیسے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے آنے والا دہشت گرد براہ راست افغانستان میں داخل ہوتا ہے آج بھی افغانستان ان کے لیے محفوظ ترین پناہ گاہ ہے۔ جہاں ان کا استقبال کرنے کے بعد ان کی تربیت مکمل کر کے انہیں اسلحہ، گولہ بارود سے لیس کر کے پاکستان میں دھکیلا جاتا ہے۔ حیرت ہے افغانستان جہاں امریکہ نیٹو اور ایساف کی فوجیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اکٹھی کی گئی ہیں وہاں دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں۔ اس سلسلے کی اہم مثال مولوی فضل اللہ کی ہے۔
مولوی فضل اللہ کسی نہ کسی طرح سوات سے جان بچا کر نکلا تو اسے بھی مشرقی افغانستان (کنٹر) میں پناہ ملی۔ جہاں اسے محفوظ ٹھکانہ، عیش و آرام، اور ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے۔ ملا فضل اللہ کی موجودگی کے حوالے سے پاکستان کئی مرتبہ اپنے تحفظات سے قابض افواج کو آگاہ کر چکا ہے۔ افغان حکومت کوباقاعدہ سفارتی سطح پر شکایت کی جا چکی ہے اور اس مرکز سے پاکستان پر حملے معمول بن چکے ہیں لیکن امریکہ، افغانستان، نیٹو نے اس ضمن میں پاکستان سے معذرت کر لی ہے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ امریکن مولانا حقانی گروپ کے خلاف پاکستان آرمی کا ایکشن چاہتے ہیں جبکہ حقانی گروپ نے کبھی پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کی نہ پاکستانی سکیورٹی کے لیے مسائل کھڑے کیے ہیں اور نہ ہی ان کا پاکستان میں کوئی ٹھکانہ ہے۔ وہ افغان شہری ہیں اور طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان سے کارروائیاں کرتے ہیں۔ البتہ کچھ افغانوں کے بیوی بچے ضرور وزیرستان میں موجود ہیں جن کے خلاف کارروائی کا کوئی جواز نہیں بنتا لیکن امریکنوں نے پاکستان کو اس ’’گستاخی‘‘ کی سزا دینے کے لیے ملا فضل اللہ کی سرپرستی شروع کر دی ہے اور باور کیا جاتا ہے کہ جو غیر ملکی دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوتے ہیں وہ ان ہی مراکز پر تربیت اور اسلحہ حاصل کرنے کے بعد یہاں آتے ہیں اور انہیں اگر مکمل پشت پناہی نہیں تو کم از کم امریکنوں کی ’’نظر انداز کر دینے کی‘‘ پالیسی کا سامنا رہتا ہے۔ یہ لوگ جس راستے سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں جس راستے سے واپس جاتے ہیں اس پر نیٹو اور امریکہ کا کنٹرول ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے امریکن افغانستان سے رخصتی سے پہلے اس خطے کی جغرافیائی اور زمینی سچائیوں کو بدلنے پر تلے ہیں۔ کیونکہ سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ افغانستان کے جہاں جہاد یا فساد اسے کوئی بھی نام دیا جائے، ہو رہا ہے اس میں پاکستان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکنوں کی براہ راست طالبان سے گفت و شنید اور سودے بازیاں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اگر وہ پاکستان کو اس گفتگو کا حصہ نہیں بناتے۔ جہاں تک دہشت گردی کے دباؤ کا تعلق ہے تو یہ حربے اب پاکستان پر آزمائے نہیں جا سکتے کیونکہ عوام کو بھی برے بھلے کی تمیز ہونے لگی ہے۔
0 comments: