انسانیت کے اجتماعی ضمیر کا قتل کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے بالآخر افضل
گوروکو قتل کر دیا اور قتل کرنے کے بعد اس کا جسد خاکی اس کے پیاروں کے
حوالے کرنے کے بجائے اسے تہاڑ جیل ہی میں دبا دیا۔ جہاں پہلے ہی بقول
بھارتی حکومت مقبول بٹ شہید کو بھی دفن کیا گیا تھا۔ مقبول بٹ کو فروری
1984ء میں اسی انداز میں چوروں کی طرح پھانسی دے کر اس کا جسد خاکی بھی اس
کے پیاروں کے حوالے نہیں کیا گیا۔ اسے بھی اسی طرح تہاڑ جیل میں دبا دیا
گیا۔ دونوں مرتبہ بھارتی حکومت نے ایک جیسا بیان جاری کیا یعنی دونوں کو
دفن کیا گیا ہے لیکن اس بات کا ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ملا۔
افضل گورو کو قتل کر نے سے دس گھنٹے پہلے بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا تھا جو تادم تحریر جاری ہے۔ عورتیں، بچے، مرد، بزرگ سب کو بھوکے پیاسے گھروں میں بند کر دیا گیا ہے۔ شیر خوار بچوں کو دودھ سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ جب کشمیری احتجاج کے لیے باہر نکلتے ہیں ان پر گولیوں کا مینہ برسایا جاتا ہے۔ گیارہ فروری کی اطلاعات کے مطابق تیس بے گناہ کشمیری دوران احتجاج قابض بھارتی فوج نے مار ڈالے۔ درجنوں زخمی ہیں۔ جنہیں ہسپتال لے جانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔ عملاً بھارتی حکومت نے اسرائیل کی مکمل نقل کرتے ہوئے جس طرح صہیونیوں نے غزہ کے مسلمانوں پر زندگی کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں بالکل وہی انداز اور ظالمانہ ہتھکنڈے یہاں بھی آزمائے جا رہے ہیں اور عالمی ضمیر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے یہ سارے مناظر تماشے کے انداز میں دیکھ رہا ہے۔
افضل گورو کے اس جیوڈیشل مرڈر پر بھارت کے باضمیر صحافی اور انسانیت دوست بھی سراپا احتجاج ہیں۔ افضل گورو کے قتل سے پہلے ہی ان کی طرف سے خاصا واویلا مچایا گیا لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے بھارتی حکومت نے خصوصاً اس مسئلے پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور یہ سارا خونی ڈرامہ امریکہ کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی رچایا گیا ہے ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ جس شخص کو بھارت کی اعلیٰ عدالت متعلقہ جرم میں بے گناہ قرار دے چکی ہو اور اس کے فیصلے میں یہ لکھا گیا ہو کہ وہ حملہ آوروں میں شامل نہیں تھا۔ پانچ حملہ آور جنہوں نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا وہ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں مارے گئے تھے۔ افضل گورو کو سری نگر سے اس حالت میں گرفتار کیا گیا کہ وہ شدید بیمار اور کئی روز سے بستر علالت پر تھا۔ بھارت کی تمام ہیومن رائٹس تنظیموں کا یہی احتجاج تھا کہ جب ایک شخص جرم کا براہ راست ذمہ دار ہی نہیں صرف اس شک کو بنیاد بنا کر وہ اس میں ملوث ہو سکتا ہے۔ اسے سزائے موت دینا کہاں کا انصاف تھا۔ جہاں انصاف کے چانکیائی پیمانے ہوں وہاں ایسا ہی انصاف ملتا ہے۔
عینی شاہد بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر افضل گورو کو پھانسی کی اطلاع چند گھنٹے پہلے دی گئی تھی جس پر انہوں نے انتہائی صبر اور ضبط کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے غسل کیا۔ نماز ادا کی۔ چائے کے چند گھونٹ پیئے اورقرآنی آیات کا ورد کرتے تختہ دار کی طرف چل دیے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ان کے چہرے پر دور دور تک خوف کا شائبہ تک نہیں تھا اور وہ معمول کے مطابق مسکرا رہے تھے۔ افسوس ظالموں نے ان کی بیوی بچوں کو ان کے جسد خاکی کا دیدار بھی نہیں کرنے دیا۔
افضل گورو کی شہادت کی خبر پھیلتے ہی سارا کشمیر سراپا احتجاج ہے۔ دلی میں کشمیری طلباء نے احتجاج کیا اور پرامن طور پر جب جمع ہوئے تو پولیس کی سربراہی میں آر۔ایس۔ ایس کے غنڈوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ ان پر بری طرح تشدد کیا۔ خواتین کے کپڑے پھاڑ ڈالے پولیس یہ سارا تماشا دیکھتی رہی۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا لیکن ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے کرفیو کشمیریوں کے راستے کی دیوار نہیں بنے۔ کشمیریوں نے جان لیا ہے کہ یہ لڑائی انہیں اکیلے ہی لڑنی ہے۔ آزادی کی یہ جنگ چوتھی نسل کو منتقل ہو رہی ہے اور بھارت اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ ظلم و جبر سے اس تحریک کو دبا لے گا۔
افضل گورو کا تعلق جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سے ہے جو مسلح جدوجہد پر یقین نہیں رکھتی لیکن 1984ء میں مقبول بٹ کو پھانسی لگنے کے بعد انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے تھے۔ یہی یٰسین ملک جو آج کل فلسفہ عدم تشدد کے پرچارک ہیں نے بھی ان ہی دنوں میں بندوق اٹھائی تھی لیکن بعد میں انہوں نے بندوق رکھ دی اور خود کو احتجاج تک محدود کر لیا۔ افضل گورو کا تعلق اس جماعت سے ہے وہ غالباً 1988ء میں پاکستان آئے تھے لیکن بعد میں انہوں نے بھی بندوق رکھ کر سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ آج بھارتیوں نے ان کو بھی مقبول بٹ کی طرح مار ڈالا اس کے بعد اگر بھارتی حکومت اس بات پر شاکی ہو کہ کشمیری نوجوانوں نے اسلحہ اٹھا لیا ہے اور پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دے تو اس سے زیادہ احمقانہ بات اور کیا ہو گی؟
حریت کانفرنس کے قیام کے بعد سے جس کے قیام کا مقصد سیاسی جدوجہد کے ذریعے کشمیر کی آزادی کا حصول ہے، بھارتی حکومت کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی اختیار کرتی اور اپنے پنڈت جی جواہر لال نہرو کی اس قرار داد کے لیے جو انہوں نے خود یو این او میں پیش کی تھی راہ ہموار کرتی۔ عین ممکن ہے سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے بھارتی حکومت کشمیر کی لیڈر شپ کے کچھ حصے کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جاتی آخر شیخ عبد اللہ اور ان کا خانوادہ بھی کشمیری ہی ہے اور بہت سے ایسے نام ہیں جو بھارت کی غلامی میں ہی رہنا احسن جانتے ہیں لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے بھارتیوں کو بھی اس بات کا یقین ہے کہ یہی لوگ ان کے آستین کے سانپ بنیں گے اور وقت آنے پر یہ سب کشمیری آزادی پسندوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اگر ایسی بات نہیں تو ماضی قریب خصوصاً جب سے بھارت نے اپنی پانچ لاکھ فوج کشمیریوں پر چڑھائی ہے تب سے ہی کوئی ایک ایسی مثال نہیں ملتی جب بھارت کی مرکزی حکومت نے مقامی کشمیری کٹھ پتلی حکومت کو مکمل اختیارات کے ساتھ قبول کیا ہو۔ یہ الگ بات کہ احمقوں کی جنت میں رہنے والے یہ کانگریسی کشمیری آج بھی بھارتی حکومت سے خیر کی توقع رکھتے ہیں۔
بھارت کے اس بیہمانہ اقدام سے جلد یا بدیر مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی یہ تحریک ماضی کی طرح مسلح جدوجہد کا راستہ اختیارکر لے گی اور اس کی ذمہ داری صرف اور صرف بھارتی حکومت پر ہو گی جس نے اپنی آنکھوں پر تعصب اور تکبر کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ کیونکہ نائن الیون کے بعد بدقسمتی سے پاکستان کو حقیقی قیادت نہیں مل سکی اور تب سے آج تک ہمارے ہاں وہی لوگ ایوان اقتدارمیں پہنچے ہیں جو کوئی نہ کوئی ’’معاہدہ‘‘ کر کے آتے ہیں جس میں غالباً سب سے اہم شق یہی ہے کہ آزادی کشمیر کے مسئلے پر گونگے بہرے بنے رہو بس کسی اہم موقع پر ایک آدھ بیان دے کر شلجموں سے مٹی جھاڑ لیا کرو۔ اس رویے نے تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ میں بد دلی پھیلا دی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کا حق ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے کسی بھی شہری کو آزاد کشمیر میں آنے سے روکنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز موجود نہیں لیکن ہم محض امریکی خوشنودی میں شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفا دار بننے کے لیے ایسے اقدامات کررہے ہیں جن سے پاکستان کی سلامتی کو ہی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ جہاں تک تحریک آزادی کشمیر کا تعلق ہے یہ لڑائی اب چوتھی نسل کو منتقل ہو رہی ہے ان کی قربانیوں کی داستان لازوال ہے لیکن ابھی شاید وہ ’’جرم ضعیفی‘‘ کے سزا وار ہیں اور بدقسمتی سے صرف فتح کے دوست ہوتے ہیں جلد وہ بھی فاتح بنیں گے اور اپنا حق حاصل کر کے رہیں گے۔ اگر ظلم و ستم اور پھانسیوں سے یہ معاملہ رکنے والا ہوتا تو کب کا ختم ہو جاتا۔
افضل گورو کو قتل کر نے سے دس گھنٹے پہلے بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا تھا جو تادم تحریر جاری ہے۔ عورتیں، بچے، مرد، بزرگ سب کو بھوکے پیاسے گھروں میں بند کر دیا گیا ہے۔ شیر خوار بچوں کو دودھ سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ جب کشمیری احتجاج کے لیے باہر نکلتے ہیں ان پر گولیوں کا مینہ برسایا جاتا ہے۔ گیارہ فروری کی اطلاعات کے مطابق تیس بے گناہ کشمیری دوران احتجاج قابض بھارتی فوج نے مار ڈالے۔ درجنوں زخمی ہیں۔ جنہیں ہسپتال لے جانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔ عملاً بھارتی حکومت نے اسرائیل کی مکمل نقل کرتے ہوئے جس طرح صہیونیوں نے غزہ کے مسلمانوں پر زندگی کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں بالکل وہی انداز اور ظالمانہ ہتھکنڈے یہاں بھی آزمائے جا رہے ہیں اور عالمی ضمیر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے یہ سارے مناظر تماشے کے انداز میں دیکھ رہا ہے۔
افضل گورو کے اس جیوڈیشل مرڈر پر بھارت کے باضمیر صحافی اور انسانیت دوست بھی سراپا احتجاج ہیں۔ افضل گورو کے قتل سے پہلے ہی ان کی طرف سے خاصا واویلا مچایا گیا لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے بھارتی حکومت نے خصوصاً اس مسئلے پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور یہ سارا خونی ڈرامہ امریکہ کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی رچایا گیا ہے ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ جس شخص کو بھارت کی اعلیٰ عدالت متعلقہ جرم میں بے گناہ قرار دے چکی ہو اور اس کے فیصلے میں یہ لکھا گیا ہو کہ وہ حملہ آوروں میں شامل نہیں تھا۔ پانچ حملہ آور جنہوں نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا وہ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں مارے گئے تھے۔ افضل گورو کو سری نگر سے اس حالت میں گرفتار کیا گیا کہ وہ شدید بیمار اور کئی روز سے بستر علالت پر تھا۔ بھارت کی تمام ہیومن رائٹس تنظیموں کا یہی احتجاج تھا کہ جب ایک شخص جرم کا براہ راست ذمہ دار ہی نہیں صرف اس شک کو بنیاد بنا کر وہ اس میں ملوث ہو سکتا ہے۔ اسے سزائے موت دینا کہاں کا انصاف تھا۔ جہاں انصاف کے چانکیائی پیمانے ہوں وہاں ایسا ہی انصاف ملتا ہے۔
عینی شاہد بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر افضل گورو کو پھانسی کی اطلاع چند گھنٹے پہلے دی گئی تھی جس پر انہوں نے انتہائی صبر اور ضبط کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے غسل کیا۔ نماز ادا کی۔ چائے کے چند گھونٹ پیئے اورقرآنی آیات کا ورد کرتے تختہ دار کی طرف چل دیے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ان کے چہرے پر دور دور تک خوف کا شائبہ تک نہیں تھا اور وہ معمول کے مطابق مسکرا رہے تھے۔ افسوس ظالموں نے ان کی بیوی بچوں کو ان کے جسد خاکی کا دیدار بھی نہیں کرنے دیا۔
افضل گورو کی شہادت کی خبر پھیلتے ہی سارا کشمیر سراپا احتجاج ہے۔ دلی میں کشمیری طلباء نے احتجاج کیا اور پرامن طور پر جب جمع ہوئے تو پولیس کی سربراہی میں آر۔ایس۔ ایس کے غنڈوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ ان پر بری طرح تشدد کیا۔ خواتین کے کپڑے پھاڑ ڈالے پولیس یہ سارا تماشا دیکھتی رہی۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا لیکن ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے کرفیو کشمیریوں کے راستے کی دیوار نہیں بنے۔ کشمیریوں نے جان لیا ہے کہ یہ لڑائی انہیں اکیلے ہی لڑنی ہے۔ آزادی کی یہ جنگ چوتھی نسل کو منتقل ہو رہی ہے اور بھارت اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ ظلم و جبر سے اس تحریک کو دبا لے گا۔
افضل گورو کا تعلق جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سے ہے جو مسلح جدوجہد پر یقین نہیں رکھتی لیکن 1984ء میں مقبول بٹ کو پھانسی لگنے کے بعد انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے تھے۔ یہی یٰسین ملک جو آج کل فلسفہ عدم تشدد کے پرچارک ہیں نے بھی ان ہی دنوں میں بندوق اٹھائی تھی لیکن بعد میں انہوں نے بندوق رکھ دی اور خود کو احتجاج تک محدود کر لیا۔ افضل گورو کا تعلق اس جماعت سے ہے وہ غالباً 1988ء میں پاکستان آئے تھے لیکن بعد میں انہوں نے بھی بندوق رکھ کر سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ آج بھارتیوں نے ان کو بھی مقبول بٹ کی طرح مار ڈالا اس کے بعد اگر بھارتی حکومت اس بات پر شاکی ہو کہ کشمیری نوجوانوں نے اسلحہ اٹھا لیا ہے اور پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دے تو اس سے زیادہ احمقانہ بات اور کیا ہو گی؟
حریت کانفرنس کے قیام کے بعد سے جس کے قیام کا مقصد سیاسی جدوجہد کے ذریعے کشمیر کی آزادی کا حصول ہے، بھارتی حکومت کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی اختیار کرتی اور اپنے پنڈت جی جواہر لال نہرو کی اس قرار داد کے لیے جو انہوں نے خود یو این او میں پیش کی تھی راہ ہموار کرتی۔ عین ممکن ہے سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے بھارتی حکومت کشمیر کی لیڈر شپ کے کچھ حصے کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جاتی آخر شیخ عبد اللہ اور ان کا خانوادہ بھی کشمیری ہی ہے اور بہت سے ایسے نام ہیں جو بھارت کی غلامی میں ہی رہنا احسن جانتے ہیں لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے بھارتیوں کو بھی اس بات کا یقین ہے کہ یہی لوگ ان کے آستین کے سانپ بنیں گے اور وقت آنے پر یہ سب کشمیری آزادی پسندوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اگر ایسی بات نہیں تو ماضی قریب خصوصاً جب سے بھارت نے اپنی پانچ لاکھ فوج کشمیریوں پر چڑھائی ہے تب سے ہی کوئی ایک ایسی مثال نہیں ملتی جب بھارت کی مرکزی حکومت نے مقامی کشمیری کٹھ پتلی حکومت کو مکمل اختیارات کے ساتھ قبول کیا ہو۔ یہ الگ بات کہ احمقوں کی جنت میں رہنے والے یہ کانگریسی کشمیری آج بھی بھارتی حکومت سے خیر کی توقع رکھتے ہیں۔
بھارت کے اس بیہمانہ اقدام سے جلد یا بدیر مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی یہ تحریک ماضی کی طرح مسلح جدوجہد کا راستہ اختیارکر لے گی اور اس کی ذمہ داری صرف اور صرف بھارتی حکومت پر ہو گی جس نے اپنی آنکھوں پر تعصب اور تکبر کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ کیونکہ نائن الیون کے بعد بدقسمتی سے پاکستان کو حقیقی قیادت نہیں مل سکی اور تب سے آج تک ہمارے ہاں وہی لوگ ایوان اقتدارمیں پہنچے ہیں جو کوئی نہ کوئی ’’معاہدہ‘‘ کر کے آتے ہیں جس میں غالباً سب سے اہم شق یہی ہے کہ آزادی کشمیر کے مسئلے پر گونگے بہرے بنے رہو بس کسی اہم موقع پر ایک آدھ بیان دے کر شلجموں سے مٹی جھاڑ لیا کرو۔ اس رویے نے تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ میں بد دلی پھیلا دی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کا حق ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے کسی بھی شہری کو آزاد کشمیر میں آنے سے روکنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز موجود نہیں لیکن ہم محض امریکی خوشنودی میں شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفا دار بننے کے لیے ایسے اقدامات کررہے ہیں جن سے پاکستان کی سلامتی کو ہی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ جہاں تک تحریک آزادی کشمیر کا تعلق ہے یہ لڑائی اب چوتھی نسل کو منتقل ہو رہی ہے ان کی قربانیوں کی داستان لازوال ہے لیکن ابھی شاید وہ ’’جرم ضعیفی‘‘ کے سزا وار ہیں اور بدقسمتی سے صرف فتح کے دوست ہوتے ہیں جلد وہ بھی فاتح بنیں گے اور اپنا حق حاصل کر کے رہیں گے۔ اگر ظلم و ستم اور پھانسیوں سے یہ معاملہ رکنے والا ہوتا تو کب کا ختم ہو جاتا۔
0 comments: