چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف کے بیانات کی گونج ابھی فضاؤں میں ہے
لیکن یار لوگوں نے اس پر جو دھما چوکڑی مچائی ہے اسے دیکھ کر گمان گزرتا ہے
کہ ہمارے شعبہ صحافت میں بعض ایسی کالی بھیڑیں آگئی ہیں جن کا ایک مخصوص
ایجنڈہ ہے اور وہ حالات و واقعات کو خاطر میں لائے بغیر اس ایجنڈے پر عمل
پیرا ہیں۔ حیرت ہے ملک کے بعض انتہائی اہم اخبارات نے دونوں محترم شخصیات
کے بیانات کی سرخیاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے لگا کر گویا یہ ثابت کرنے کی
کوشش کی ہے کہ عدلیہ اور فوج میں ٹکراؤ ہو گیا ہے یا پھر جنرل کیانی اور
جسٹس افتخار چوہدری نے دراصل ایک دوسرے کو مخاطب کر کے یہ باتیں کی ہیں۔
جبکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب اپنا خطاب پہلے فرما چکے تھے جس میں قطعاً پاکستان آرمی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی اور محترم چیف جسٹس نے تیزی سے بدلتے عالمی منظر نامے کے حوالے سے کہا ہے کہ اب طاقت ور کہلانے کے لیے آپ کی مضبوط اکانومی ناگزیر ہے حیرت ہے ہمارے ’’باخبر میڈیا‘‘ پر جس نے بات کا بتنگڑ بنا کر رکھ دیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
میں اپنے گزشتہ کالموں میں لکھتا آرہا ہوں کہ ہمارے بعض اینکرز ایسی حرکتیں کر رہے ہیں جنہیں ’’مشکوک‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بات بے بات فوج کو کسی بھی بحث میں گھسیٹنا۔ بار بار بغیر کسی ریفرنس کے یہ کہتے رہنا کہ ایجنسیاں بندے اٹھا کر لے جاتی ہیں اور اس مفروضے کو اپنے معزز مہمانوں کے منہ میں ڈال کر ان سے اپنے ایجنڈے کے مطابق باتیں نکلوانا تو ایک معمول سا بن کر رہ گیا ہے۔
جب بعض عاقبت اندیش مہمانوں نے ان مخصوص اینکرز کی توجہ اس طرف دلائی کہ وہ معاملات کو اس طرح ’’جرنلائز‘‘ نہ کریں اور کسی جرنیل کی کرپشن کو اس کے ادارے کی اہانت کا ذریعہ نہ بنائیں تو انہوں نے ایک نیا فقرہ تراش لیا جو کچھ اس طرح تھا کہ ہم جوانوں کی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں لیکن جرنیل حضرات فلاں فلاں معاملات میں ملوث اور ریٹائرمنٹ پر کروڑ پتی قسم کی کی چیز بنے ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ کوئی عقل کا اندھا بھی یہ بات سمجھ سکتا تھا کہ یہ فوج میں انتشار پیدا کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔
اس ضمن میں کل ہی ایک پروگرام میں شیخ رشید نے محمد مالک کو یاد دلایا کہ جب اس نے شہید فوجیوں پر پروگرام کیا تو ایک ماں کو جس کا بیٹا شہید ہو چکا تھا بہت ڈرانے دھمکانے اور اس ’’جنگ‘‘ کو ایک فضول سی چیز ثابت کرنے کے بعد بھی دریافت کیا کہ کیا وہ اپنے دوسرے بیٹے کو فوج میں بھیجنا پسند کرے گی؟ اور اس ماں کا جواب تھا کہ نہ صرف دوسرے اس کے جتنے بیٹے ہیں سب وطن کے لیے شہید ہو جائیں تو بھی وہ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔۔ حیرت ہے اس بات پر شرمندہ ہونے کے بجائے محمد مالک نے کہا ’’ ہاں جی! مرنے کے بعد اسے چند ہزار روپے ایک گھی کا کنستر اور چینی، آٹا ملا تھا جبکہ ایک جرنیل اگر۔۔۔‘‘
یہ ہے وہ ماینڈ سیٹ جس کا رونا ہم روتے ہیں۔ یہ لوگ جو خود کو لبرل اور لا مذہب کہتے ہیں انہیں اس جذبے کی شدت کا اندازہ ہی نہیں جو سپاہیوں کی بوڑھی ماؤں کو وطن کے لیے کچھ کر گزرنے پر مجبور کرتا ہے انہیں یہ کون بتائے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں شہید ہونے والے جوان اور افسر اپنی تنخواہوں اور مراعات کے تناسب سے شہید نہیں ہوتے۔
ایئر مارشل اصغر خان جن کے کریڈٹ پر پاکستان ایئر فورس کے لیے کوئی کارنامہ نہیں خیال رہے کہ 1965ء کی سترہ روزہ جنگ میں ایئر مارشل نور خان مرحوم نے ایئر فورس کی کمانڈ کی اور اس نے محیر العقول کارنامے انجام دیے۔ اگر دوران جنگ اصغر خان صاحب کی کمانڈ ہوتی تو وہ ’’لاء فل اور ان لاء فل‘‘ کے چکر میں پاکستان ایئر فورس کا کباڑہ کروا دیتے۔ 6ستمبر سے پہلے غالباً مونا باؤ سیکٹر میں آپ کو مشن دیا گیا جس پرموصوف نے اپنے پرانے دوست بھارتی ایئر مارشل کو پیغام بھیجا کہ ’’ نہ میں حملہ کروں گا نہ تم کرو۔ فوج والوں کو آپس میں لڑنے مرنے دو۔‘‘
حیرت ہے کہ پاکستان انٹیلی جنس نے یہ پیغام پکڑنے کے بعد ان کا کورٹ مارشل کیوں نہ کروایا؟ الٹا وہ اسے بھی اپنا کارنامہ بتاتے ہیں۔ پیر پگاڑہ کے قافلے پر بمباری نہ کرنے کا ان کے فیصلہ کا کوئی دستاویزی ثبوت کہیں موجود نہیں، اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اپنے سی۔او کی حکم عدولی کریں اور موجیں بھی اڑائیں۔ اگر وہ ایسے ہی ’’لاء فل‘‘ تھے تو رائل انڈین ایئر فورس کے بجائے سبھاش چندر بوس کی آزادی ہند فوج میں کیوں نہ بھرتی ہو گئے؟ بھولے بادشاہوں کی قوم ہے۔ 1965ء کی ساری جنگ نور خان نے لڑی اور ہیرو موصوف بن گئے۔ پہلے جسٹس پارٹی بنائی، پھر تحریک استقلال اور آج کل مقدمات کا شوق فرما رہے ہیں۔ کل کی بات ہے جب اصغر خان سب سے پہلے تو بھٹو مرحوم کی مدد کے لیے میدان میں نکلے اور ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی پھر بھٹو کے برسر اقتدار آنے پر غصہ کر کے اپوزیشن میں آگئے۔ ابھی لوگ اتنے بھی بوڑھے نہیں ہوئے کہ انہیں یاد نہ رہا ہو کہ اصغر خان صاحب بھٹو مرحوم کے لیے ’’کوہالہ کے پل پر پھانسی‘‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ عین اس مرحلے پر جب اسلامی جمہوری اتحاد جس کے وہ بھی ممبر تھے اور پیپلز پارٹی کے درمیان دوبارہ الیکشن کے مذاکرات کامیاب ہو رہے تھے کہ موصوف استعفیٰ دے کر الگ ہو گئے اور جنرل ضیاء کو کھلا خط لکھ کر مارشل لاء لگانے کی دعوت دی جس کی اب وہ عجیب و غریب تاویلیں پیش کر رہے ہیں۔
فوج میں احکامات پر مکمل طاقت سے عمل کی تربیت دی جاتی ہے۔ فلسفہ نہیں پڑھایا جاتا۔ اگر اصغر خان صاحب کی ’’لاء فل کمانڈ‘‘ کی تھیوری مان لی جائے اور ایئر فورس کا کوئی پائلٹ سوات میں چھپے دہشت گردوں پر یہ کہہ کر بمباری سے انکار کر دے اور کہ یہ ’’ لاء فل کمانڈ‘‘ نہیں تو اصغر خان صاحب کے حساب سے اسے کس کھاتے میں رکھا جائے گا؟ کسی فوجی کمانڈر کے کسی بھی حکم یا فیصلے کے غلط یا صحیح ہونے کا فیصلہ بھی فوج کی اعلیٰ قیادت ہی کرتی ہے۔ دنیا بھر میں یہی اصول کافرما ہے۔ بمشکل آدھا دن ’’بقائمی ہوش و حواس‘‘ رہنے والے کالم نگار نہیں کرتے۔ پاکستان میں پریس امریکہ سے زیادہ آزاد نہیں ہوا۔ وہاں کتنے چینلز پر روزانہ امریکی فوج کی ویت نام عراق اور افغانستان میں ناکامی کا ماتم کیا جاتا ہے؟
فوج میں ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کا نظام بہت سخت ہے۔ سپاہی کے جذبات کمانڈر اور چیف کمانڈر تک فوراً پہنچتے ہیں۔ جنرل کیانی نے جو بھی کہا وہ اپنے افسروں اور جوانوں کے جذبات کی ترجمانی میں کہا۔ اسے عدلیہ اور فوج کی لڑائی میں تبدیل کرنا نہایت احمقانہ اور سازشی اقدام ہو گا۔ وزیراعظم نے سچ کہا ہے کہ ہم نے تنکا تنکا جمع کر کے جمہوریت کا یہ گھونسلہ بنایا ہے۔ بڑی تکلیف دہ بات ہو گی اگر ہمارا طاقتور میڈیا ہی اسے گرا دے۔
فوج کوئی مقدس گائے نہیں لیکن فوج پر دشمن کی زبان میں تنقید بھی قابل برداشت نہیں اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فوج سے زیادہ اپنے دشمن کی پہچان اور کسی کو نہیں ہوتی وہ پیشہ ور ہوتے ہیں۔ جنہیں لڑنا مرنا سکھایا جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث مبارکہ سب سے پہلے پڑھائی جاتی ہے۔
’’ اپنے آپ کو جانو، اپنے دشمن کو پہچانو‘‘
امر واقعہ یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب اپنا خطاب پہلے فرما چکے تھے جس میں قطعاً پاکستان آرمی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی اور محترم چیف جسٹس نے تیزی سے بدلتے عالمی منظر نامے کے حوالے سے کہا ہے کہ اب طاقت ور کہلانے کے لیے آپ کی مضبوط اکانومی ناگزیر ہے حیرت ہے ہمارے ’’باخبر میڈیا‘‘ پر جس نے بات کا بتنگڑ بنا کر رکھ دیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
میں اپنے گزشتہ کالموں میں لکھتا آرہا ہوں کہ ہمارے بعض اینکرز ایسی حرکتیں کر رہے ہیں جنہیں ’’مشکوک‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بات بے بات فوج کو کسی بھی بحث میں گھسیٹنا۔ بار بار بغیر کسی ریفرنس کے یہ کہتے رہنا کہ ایجنسیاں بندے اٹھا کر لے جاتی ہیں اور اس مفروضے کو اپنے معزز مہمانوں کے منہ میں ڈال کر ان سے اپنے ایجنڈے کے مطابق باتیں نکلوانا تو ایک معمول سا بن کر رہ گیا ہے۔
جب بعض عاقبت اندیش مہمانوں نے ان مخصوص اینکرز کی توجہ اس طرف دلائی کہ وہ معاملات کو اس طرح ’’جرنلائز‘‘ نہ کریں اور کسی جرنیل کی کرپشن کو اس کے ادارے کی اہانت کا ذریعہ نہ بنائیں تو انہوں نے ایک نیا فقرہ تراش لیا جو کچھ اس طرح تھا کہ ہم جوانوں کی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں لیکن جرنیل حضرات فلاں فلاں معاملات میں ملوث اور ریٹائرمنٹ پر کروڑ پتی قسم کی کی چیز بنے ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ کوئی عقل کا اندھا بھی یہ بات سمجھ سکتا تھا کہ یہ فوج میں انتشار پیدا کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔
اس ضمن میں کل ہی ایک پروگرام میں شیخ رشید نے محمد مالک کو یاد دلایا کہ جب اس نے شہید فوجیوں پر پروگرام کیا تو ایک ماں کو جس کا بیٹا شہید ہو چکا تھا بہت ڈرانے دھمکانے اور اس ’’جنگ‘‘ کو ایک فضول سی چیز ثابت کرنے کے بعد بھی دریافت کیا کہ کیا وہ اپنے دوسرے بیٹے کو فوج میں بھیجنا پسند کرے گی؟ اور اس ماں کا جواب تھا کہ نہ صرف دوسرے اس کے جتنے بیٹے ہیں سب وطن کے لیے شہید ہو جائیں تو بھی وہ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔۔ حیرت ہے اس بات پر شرمندہ ہونے کے بجائے محمد مالک نے کہا ’’ ہاں جی! مرنے کے بعد اسے چند ہزار روپے ایک گھی کا کنستر اور چینی، آٹا ملا تھا جبکہ ایک جرنیل اگر۔۔۔‘‘
یہ ہے وہ ماینڈ سیٹ جس کا رونا ہم روتے ہیں۔ یہ لوگ جو خود کو لبرل اور لا مذہب کہتے ہیں انہیں اس جذبے کی شدت کا اندازہ ہی نہیں جو سپاہیوں کی بوڑھی ماؤں کو وطن کے لیے کچھ کر گزرنے پر مجبور کرتا ہے انہیں یہ کون بتائے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں شہید ہونے والے جوان اور افسر اپنی تنخواہوں اور مراعات کے تناسب سے شہید نہیں ہوتے۔
ایئر مارشل اصغر خان جن کے کریڈٹ پر پاکستان ایئر فورس کے لیے کوئی کارنامہ نہیں خیال رہے کہ 1965ء کی سترہ روزہ جنگ میں ایئر مارشل نور خان مرحوم نے ایئر فورس کی کمانڈ کی اور اس نے محیر العقول کارنامے انجام دیے۔ اگر دوران جنگ اصغر خان صاحب کی کمانڈ ہوتی تو وہ ’’لاء فل اور ان لاء فل‘‘ کے چکر میں پاکستان ایئر فورس کا کباڑہ کروا دیتے۔ 6ستمبر سے پہلے غالباً مونا باؤ سیکٹر میں آپ کو مشن دیا گیا جس پرموصوف نے اپنے پرانے دوست بھارتی ایئر مارشل کو پیغام بھیجا کہ ’’ نہ میں حملہ کروں گا نہ تم کرو۔ فوج والوں کو آپس میں لڑنے مرنے دو۔‘‘
حیرت ہے کہ پاکستان انٹیلی جنس نے یہ پیغام پکڑنے کے بعد ان کا کورٹ مارشل کیوں نہ کروایا؟ الٹا وہ اسے بھی اپنا کارنامہ بتاتے ہیں۔ پیر پگاڑہ کے قافلے پر بمباری نہ کرنے کا ان کے فیصلہ کا کوئی دستاویزی ثبوت کہیں موجود نہیں، اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اپنے سی۔او کی حکم عدولی کریں اور موجیں بھی اڑائیں۔ اگر وہ ایسے ہی ’’لاء فل‘‘ تھے تو رائل انڈین ایئر فورس کے بجائے سبھاش چندر بوس کی آزادی ہند فوج میں کیوں نہ بھرتی ہو گئے؟ بھولے بادشاہوں کی قوم ہے۔ 1965ء کی ساری جنگ نور خان نے لڑی اور ہیرو موصوف بن گئے۔ پہلے جسٹس پارٹی بنائی، پھر تحریک استقلال اور آج کل مقدمات کا شوق فرما رہے ہیں۔ کل کی بات ہے جب اصغر خان سب سے پہلے تو بھٹو مرحوم کی مدد کے لیے میدان میں نکلے اور ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی پھر بھٹو کے برسر اقتدار آنے پر غصہ کر کے اپوزیشن میں آگئے۔ ابھی لوگ اتنے بھی بوڑھے نہیں ہوئے کہ انہیں یاد نہ رہا ہو کہ اصغر خان صاحب بھٹو مرحوم کے لیے ’’کوہالہ کے پل پر پھانسی‘‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ عین اس مرحلے پر جب اسلامی جمہوری اتحاد جس کے وہ بھی ممبر تھے اور پیپلز پارٹی کے درمیان دوبارہ الیکشن کے مذاکرات کامیاب ہو رہے تھے کہ موصوف استعفیٰ دے کر الگ ہو گئے اور جنرل ضیاء کو کھلا خط لکھ کر مارشل لاء لگانے کی دعوت دی جس کی اب وہ عجیب و غریب تاویلیں پیش کر رہے ہیں۔
فوج میں احکامات پر مکمل طاقت سے عمل کی تربیت دی جاتی ہے۔ فلسفہ نہیں پڑھایا جاتا۔ اگر اصغر خان صاحب کی ’’لاء فل کمانڈ‘‘ کی تھیوری مان لی جائے اور ایئر فورس کا کوئی پائلٹ سوات میں چھپے دہشت گردوں پر یہ کہہ کر بمباری سے انکار کر دے اور کہ یہ ’’ لاء فل کمانڈ‘‘ نہیں تو اصغر خان صاحب کے حساب سے اسے کس کھاتے میں رکھا جائے گا؟ کسی فوجی کمانڈر کے کسی بھی حکم یا فیصلے کے غلط یا صحیح ہونے کا فیصلہ بھی فوج کی اعلیٰ قیادت ہی کرتی ہے۔ دنیا بھر میں یہی اصول کافرما ہے۔ بمشکل آدھا دن ’’بقائمی ہوش و حواس‘‘ رہنے والے کالم نگار نہیں کرتے۔ پاکستان میں پریس امریکہ سے زیادہ آزاد نہیں ہوا۔ وہاں کتنے چینلز پر روزانہ امریکی فوج کی ویت نام عراق اور افغانستان میں ناکامی کا ماتم کیا جاتا ہے؟
فوج میں ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کا نظام بہت سخت ہے۔ سپاہی کے جذبات کمانڈر اور چیف کمانڈر تک فوراً پہنچتے ہیں۔ جنرل کیانی نے جو بھی کہا وہ اپنے افسروں اور جوانوں کے جذبات کی ترجمانی میں کہا۔ اسے عدلیہ اور فوج کی لڑائی میں تبدیل کرنا نہایت احمقانہ اور سازشی اقدام ہو گا۔ وزیراعظم نے سچ کہا ہے کہ ہم نے تنکا تنکا جمع کر کے جمہوریت کا یہ گھونسلہ بنایا ہے۔ بڑی تکلیف دہ بات ہو گی اگر ہمارا طاقتور میڈیا ہی اسے گرا دے۔
فوج کوئی مقدس گائے نہیں لیکن فوج پر دشمن کی زبان میں تنقید بھی قابل برداشت نہیں اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فوج سے زیادہ اپنے دشمن کی پہچان اور کسی کو نہیں ہوتی وہ پیشہ ور ہوتے ہیں۔ جنہیں لڑنا مرنا سکھایا جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث مبارکہ سب سے پہلے پڑھائی جاتی ہے۔
’’ اپنے آپ کو جانو، اپنے دشمن کو پہچانو‘‘
0 comments: