اللہ ہی جانے ہمیں کیسے بزدل دشمن سے پالا پڑا ہے جو دوستی تو کیا دشمنی
بھی ڈھنگ سے نبھانے کا شعور نہیں رکھتا۔ دنیا کے ہر ملک، معاشرے، مذہب اور
محکمے میں کوئی نہ کوئی ضابطہ اخلاق ضرور ہوتا ہے شنید ہے کہ متحارب کرکٹ
ٹیموں کے باؤلرز کے درمیان ایک خاموش معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو
باؤنسرز مار کر زخمی نہیں کریں گے۔ اس طرح دنیا کی جتنی پیشہ ور تنظمیں ہیں
ان میں ایک دوسرے کے لیے بہر حال احترام کا جذبہ پایا جاتا ہے لیکن ہمارا
ہمسایہ ملک جو خود کو سیکولر اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے پر مصر
ہے بنیادی انسانی حقوق کا احترام بھی نہیں کرتا۔ جس کی تازہ مثال پاکستانی
فوج کے سپاہی رفیق احمد کی شہادت ہے جو کشمیر کے کھوئی رٹہ سیکٹر میں راستہ
بھول کر بھارتی علاقے میں داخل ہو گیا جہاں اس نے خود کو سرنڈر کیا اپنی
شناخت بتائی اور وہاں موجود سیکولر ازم کے ان پرچارکوں کو بتایا کہ وہ
راستہ بھول کر یہاں آگیا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں لگی ہوئی۔ اگر حالت جنگ میں کوئی سولجر اپنی یونیفارم میں گرفتار ہو جائے تو اس کو جنیوا رولز کے تحت گرفتارکر کے جنگ کے خاتمے پر دونوں متحارب افواج ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔ یہ سانحہ تو حالت امن میں پیش آیا تھا اس کے باوجود بھارتی بزدل فوجیوں نے اس نہتے اور سرنڈر جوان کو شہید کر دیا۔ یہ تو تصور کیا ہی جا سکتا ہے کہ شہید کرنے سے پہلے ان موزیوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہو گا۔ خدا کا شکر ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت اور سفارتی دباؤ پر بھارتی سورماؤں نے اس کی لاش واپس کر دی ورنہ تو ان ظالموں سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔
بھارتی فوج کی اس مجرمانہ حرکت کا اصولی طور پر تو ساری دنیا کو نوٹس لینا چاہیے لیکن مفادات کی اس دنیا میں ایسا نہیں ہوتا یہاں ہر کسی کے اپنے مفادات ہیں جن کے مطابق ہی وہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا نے بھی بے حسی کی انتہا کر دی جبکہ بھارتی چینلز مسلسل پاکستانی ’’گھس پیٹھ‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں۔
گزشتہ تین ماہ سے کنٹرول لائن پر بھارت جو حرکتیں کر رہا ہے اور جس انداز کی جارحیت اس کی طرف سے ہو رہی ہے اس کا پس منظرتو اچھی طرح سمجھ آجاتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے اپنی فوج افغانستان سے نکالنے کے اعلان نے بھارت پر بوکھلاہٹ طاری کر دی ہے کیونکہ افغانستان میں اسے امریکہ کی تمام کوششوں اور بھارت کے چانکیائی ہتھکنڈوں کے بعد بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور بھارتیوں کو اس علاقے میں جس تھانیداری کی توقع تھی وہ بھی ملنے سے رہی اب وہ پاکستان پر جس کی فوج دہشت گردی کے خلاف عملاً حالت جنگ میں ہے مزید دباؤ بڑھا کر کچھ مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جن میں سب سے بڑا مقصد تو کچھ تزویراتی نوعیت کی پوزیشنز کا حصول ہے جہاں بیٹھ کر بھارتی فوج خود کو طرم خان ثابت کرنے کی کوشش کرے گی۔ دوسرا خوف جس نے بھارتی عسکری قیادت کو ڈسا ہوا ہے وہ کشمیری نوجوانوں کی جدوجہد آزادی کے دوبارہ مسلح تحریک آزادی میں بدلنے کا خوف ہے۔ بھارتی حکومت نے اس خطے میں ہونے والی تبدیلیوں میں مقبوضہ کشمیر میں جاری مسلح جہاد پر قابو پا لیا تھا لیکن عام پاکستانی بھی اس تلخ زمینی سچائی سے آگاہ نہیں کہ منافق کشمیری قیادت کا اصلی چہرہ کشمیریوں نے پہچان لیا تھا اور وہ اب سید علی گیلانی اور ان جیسے چند لیڈروں کے علاوہ اورکسی کی بھی بات پر کان بھی دھرنے کو تیار نہیں تھے۔
افضل گورو کی تہاڑ جیل میں بزدلانہ پھانسی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور کشمیری نوجوان اب یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ انہیں یہ جنگ خود ہی لڑنی ہے تب تک کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا جب تک کہ وہ فتح مند ہونے کے قریب نہ پہنچ جائیں۔ کیونکہ شکست کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ البتہ فتح کے بہت سے رشتہ دار پیدا ہو جاتے ہیں۔
بھارتی یہ سمجھتے تھے کہ امریکنوں کی مدد سے انہوں نے پاکستان پر جو ناجائز دباؤ گزشتہ آٹھ دس سال میں ڈالے ہیں اور جیسے بدترین حالات میں پاکستانی حکومت نے انہیں کنٹرول لائن پر بھی خاردار تاروں کا جال بچھا نے کی اجازت دے دی ۔ اس سے آزادی کشمیر کا بیس کیمپ یعنی آزاد جموں کشمیر عضو معطل بن چکا ہے اور یہ عقل کے اندھے سمجھتے ہیں کہ اگر آزاد کشمیر سے مداخلت بند ہو جائے تو ’’مجاہدین ‘‘ سے ان کی جان چھٹ جائے گی جبکہ ایسا نہیں ہوا۔ ایک دن کے لیے بھی مقبوضہ کشمیر میں مسلح جہاد ختم نہیں ہوا البتہ اس حوالے سے خبروں پر ضرور سنسر شپ رہی ہے۔ اب کشمیری نوجوان پھر متحرک ہو رہے ہیں افضل گورو اور جس نے بندوق رکھ کر احتجاج کا راستہ اپنایا تھا اس کو بھی بھارتیوں نے قتل کر دیا جس کے بعد سے کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں آگ لگی ہے اور وہ اب بندوق اٹھانے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔
اس صورتحال نے بھارتیوں پر بوکھلاہٹ طاری کر دی ہے اور وہ پاکستان پر دباؤ بڑھا کریا بھارتی سپریم کمانڈروں کے ماضی کے بیانات کے حوالے سے ’’محدود جنگ‘‘ کا آپشن اپنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ جب کا مطلب اس خطے میں ایک مستقل تباہی اور برباد ی کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا۔
پاکستان کی سیکولر قیادت اور سوشل میڈیا کو بھی جان لینا چاہیے کہ ہم بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیں یا نہ دیں اس کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بھارتی حکومت گزشتہ 65سال سے اس زعم کا شکار ہے۔ کہ وہ ایک دن (خاکم بدہن) پاکستان کو دوبارہ ہندوستان میں ضم کر دیں گے۔ بدقسمتی سے ان کے پاس 1971ء کا تجربہ موجود ہے اور وہ عقل کے اندھے 2013ء کو بھی 1971ء ہی سمجھ رہے ہیں اس کا خیال ہے کہ پاکستان میں اپنا حمایتی میڈیا، مادرپدر آزاد این جی اوز اور زر خرید سیکولر ذہینت کی مدد سے بھارت 1971ء والے حالات دوبارہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ جو ظاہر ہے کسی ذہنی مفلوج کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ اس مرحلے پر اگر ہم نے خصوصاً کنٹرول لائن پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی نہ اپنائی تو سپاہی رفیق احمد جیسے اور سانحہ بھی ہمارے منتظر ہیں
بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں لگی ہوئی۔ اگر حالت جنگ میں کوئی سولجر اپنی یونیفارم میں گرفتار ہو جائے تو اس کو جنیوا رولز کے تحت گرفتارکر کے جنگ کے خاتمے پر دونوں متحارب افواج ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔ یہ سانحہ تو حالت امن میں پیش آیا تھا اس کے باوجود بھارتی بزدل فوجیوں نے اس نہتے اور سرنڈر جوان کو شہید کر دیا۔ یہ تو تصور کیا ہی جا سکتا ہے کہ شہید کرنے سے پہلے ان موزیوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہو گا۔ خدا کا شکر ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت اور سفارتی دباؤ پر بھارتی سورماؤں نے اس کی لاش واپس کر دی ورنہ تو ان ظالموں سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔
بھارتی فوج کی اس مجرمانہ حرکت کا اصولی طور پر تو ساری دنیا کو نوٹس لینا چاہیے لیکن مفادات کی اس دنیا میں ایسا نہیں ہوتا یہاں ہر کسی کے اپنے مفادات ہیں جن کے مطابق ہی وہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا نے بھی بے حسی کی انتہا کر دی جبکہ بھارتی چینلز مسلسل پاکستانی ’’گھس پیٹھ‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں۔
گزشتہ تین ماہ سے کنٹرول لائن پر بھارت جو حرکتیں کر رہا ہے اور جس انداز کی جارحیت اس کی طرف سے ہو رہی ہے اس کا پس منظرتو اچھی طرح سمجھ آجاتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے اپنی فوج افغانستان سے نکالنے کے اعلان نے بھارت پر بوکھلاہٹ طاری کر دی ہے کیونکہ افغانستان میں اسے امریکہ کی تمام کوششوں اور بھارت کے چانکیائی ہتھکنڈوں کے بعد بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور بھارتیوں کو اس علاقے میں جس تھانیداری کی توقع تھی وہ بھی ملنے سے رہی اب وہ پاکستان پر جس کی فوج دہشت گردی کے خلاف عملاً حالت جنگ میں ہے مزید دباؤ بڑھا کر کچھ مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جن میں سب سے بڑا مقصد تو کچھ تزویراتی نوعیت کی پوزیشنز کا حصول ہے جہاں بیٹھ کر بھارتی فوج خود کو طرم خان ثابت کرنے کی کوشش کرے گی۔ دوسرا خوف جس نے بھارتی عسکری قیادت کو ڈسا ہوا ہے وہ کشمیری نوجوانوں کی جدوجہد آزادی کے دوبارہ مسلح تحریک آزادی میں بدلنے کا خوف ہے۔ بھارتی حکومت نے اس خطے میں ہونے والی تبدیلیوں میں مقبوضہ کشمیر میں جاری مسلح جہاد پر قابو پا لیا تھا لیکن عام پاکستانی بھی اس تلخ زمینی سچائی سے آگاہ نہیں کہ منافق کشمیری قیادت کا اصلی چہرہ کشمیریوں نے پہچان لیا تھا اور وہ اب سید علی گیلانی اور ان جیسے چند لیڈروں کے علاوہ اورکسی کی بھی بات پر کان بھی دھرنے کو تیار نہیں تھے۔
افضل گورو کی تہاڑ جیل میں بزدلانہ پھانسی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور کشمیری نوجوان اب یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ انہیں یہ جنگ خود ہی لڑنی ہے تب تک کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا جب تک کہ وہ فتح مند ہونے کے قریب نہ پہنچ جائیں۔ کیونکہ شکست کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ البتہ فتح کے بہت سے رشتہ دار پیدا ہو جاتے ہیں۔
بھارتی یہ سمجھتے تھے کہ امریکنوں کی مدد سے انہوں نے پاکستان پر جو ناجائز دباؤ گزشتہ آٹھ دس سال میں ڈالے ہیں اور جیسے بدترین حالات میں پاکستانی حکومت نے انہیں کنٹرول لائن پر بھی خاردار تاروں کا جال بچھا نے کی اجازت دے دی ۔ اس سے آزادی کشمیر کا بیس کیمپ یعنی آزاد جموں کشمیر عضو معطل بن چکا ہے اور یہ عقل کے اندھے سمجھتے ہیں کہ اگر آزاد کشمیر سے مداخلت بند ہو جائے تو ’’مجاہدین ‘‘ سے ان کی جان چھٹ جائے گی جبکہ ایسا نہیں ہوا۔ ایک دن کے لیے بھی مقبوضہ کشمیر میں مسلح جہاد ختم نہیں ہوا البتہ اس حوالے سے خبروں پر ضرور سنسر شپ رہی ہے۔ اب کشمیری نوجوان پھر متحرک ہو رہے ہیں افضل گورو اور جس نے بندوق رکھ کر احتجاج کا راستہ اپنایا تھا اس کو بھی بھارتیوں نے قتل کر دیا جس کے بعد سے کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں آگ لگی ہے اور وہ اب بندوق اٹھانے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔
اس صورتحال نے بھارتیوں پر بوکھلاہٹ طاری کر دی ہے اور وہ پاکستان پر دباؤ بڑھا کریا بھارتی سپریم کمانڈروں کے ماضی کے بیانات کے حوالے سے ’’محدود جنگ‘‘ کا آپشن اپنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ جب کا مطلب اس خطے میں ایک مستقل تباہی اور برباد ی کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا۔
پاکستان کی سیکولر قیادت اور سوشل میڈیا کو بھی جان لینا چاہیے کہ ہم بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیں یا نہ دیں اس کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بھارتی حکومت گزشتہ 65سال سے اس زعم کا شکار ہے۔ کہ وہ ایک دن (خاکم بدہن) پاکستان کو دوبارہ ہندوستان میں ضم کر دیں گے۔ بدقسمتی سے ان کے پاس 1971ء کا تجربہ موجود ہے اور وہ عقل کے اندھے 2013ء کو بھی 1971ء ہی سمجھ رہے ہیں اس کا خیال ہے کہ پاکستان میں اپنا حمایتی میڈیا، مادرپدر آزاد این جی اوز اور زر خرید سیکولر ذہینت کی مدد سے بھارت 1971ء والے حالات دوبارہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ جو ظاہر ہے کسی ذہنی مفلوج کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ اس مرحلے پر اگر ہم نے خصوصاً کنٹرول لائن پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی نہ اپنائی تو سپاہی رفیق احمد جیسے اور سانحہ بھی ہمارے منتظر ہیں
0 comments: