ایک طرف سیاست کی گرم بازاری ہے کہ جس نے ملک کی پہلے ہی سے تباہ شدہ معیشت
کو ایک دھکا لگا کر مکمل تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اندرونی خلفشار نے
عوام کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ خصوصاً اسلام آباد کے شہری قریباً
مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ آمدورفت میں رکاوٹیں، کاروبار تباہی کے دہانے پر،
دہشت گردی کا خوف جو قریباً ہر بالغ پاکستانی کے دل و دماغ میں سرایت کر
چکا ہے۔ کرپشن کے نت نئے سیکنڈل جس کی انتہا یہ کہ ملک کی سب سے بڑی
ایگزیکٹو اتھارٹی یعنی پاکستان کے وزیراعظم کی عدالت عظمیٰ کی طرف سے کرپشن
سیکنڈل میں گرفتاری کا حکم، پراسرار طور پر اچانک آٹے کی بڑھتی قیمتیں،
ملک میں لاکھوں من زائد گندم کے باوجود آٹے کی کمیابی، مہنگائی کا نیا
طوفان، دہشت گردی، گیس، بجلی اور اب پانی بھی کی نایابی، کس کس کا رونا
رویا جائے۔ اس تباہ کن صورتحال نے (خاکم برہن) پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد
کو ملک کے مستقبل سے مایوس کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے میڈیا پر
قائداعظم کے فیصلوں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گڑے مردے
اکھاڑے جا رہے ہیں اور نوجوان نسل کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ
خدانخواستہ پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہی غلط تھا۔
بدقسمتی کی انتہا ملاحظہ فرمائیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا وزیراعلیٰ دوبئی میں داد عیش دے رہا ہے جبکہ اس کے شہر میں جنازے رکھ کر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ مرکز میں برسر اقتدار پارٹی کا یہ جیالا کتوں اور موٹر سائیکلوں کا شوقین اور اپنی وزارت اعلیٰ کا آدھے سے زیادہ وقت اپنے صوبے سے باہر گزارنے، عجیب و غریب طرح کی یاوہ گوئی کرکے میڈیا اور حکومت کا تمسخر اڑانے میں یدطولیٰ رکھتا ہے۔ جسے وزیراعظم نے بار بار دبئی سے واپس آکر صورتحال کا سامنا کرنے کی تلقین کی جس کو اس نے پرکاہ جتنی اہمیت نہ دی بالآخر بادل نخواستہ اسے برطرف کرنا پڑا۔ وزیراعظم اسلام آباد سے غائب ہیں۔ اپنے صاحبزادے کی شادی کے جشن میں مگن وزیراعظم کو قطعاً اس سنگین صورتحال کا احساس نہیں جہاں تک صدر محترم کا تعلق ہے۔ ان پر کوئی تبصرہ کرنا صرف وقت اور الفاظ کا ضیاع ہے۔ ان کا تو ایک ہی ایجنڈا ہے جسے پنجابی میں کہتے ہیں۔ ’’ضد میری مجبوری‘‘
ان سنگین حالات میں اچانک بھارت کو کھجلی ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ طویل عرصے سے بھارتی حکومت پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کے لیے پاکستان میں تخریب کاری کروا رہی ہے۔ اب اس نے مقبوضہ کشمیر کے محاذ کو گرم کرنے کے گھناؤنے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔ پاکستان آرمی کے خلاف بزدلانہ حملوں میں ہمارے تین جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ کئی زخمی ہیں اور بھارت کا آرمی چیف یہ دھمکیاں دے رہا ہے کہ ہم پاکستان کو مزا چکھائیں گے۔ ایئر فورس چیف اس سے پہلے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کر چکا ہے۔ پاکستانی احتجاج کو پرکاہ جتنی اہمیت بھی نہیں دی جا رہی۔ حیرت ہے کہ نارمل حالات میں بھی بھارتی آرمی چیف نے نیشنل میڈیا پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان پر گھٹیا الزامات لگائے اور دھمکیاں دیں جس کا عالمی برادری نے قطعاً نوٹس نہیں لیا۔ خصوصاً اس مسئلے پر امریکہ کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے اور بظاہر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اس جارحیت کو مکمل امریکن پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ امریکنوں کے کسی بھی ناجائز مطالبے کے سامنے جنرل کیانی نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے اور امریکنوں کی جان عذاب میں آئی ہوئی ہے وہ اپنی دانست میں افغانستان سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار نہیں انہوں نے اربوں ڈالر اور سینکڑوں جانوں کے نقصان سے یہ تزویراتی برتری حاصل کی ہے اور چین کو قریب سے مانیٹر کر رہے ہیں۔ اب وہ بھارت کو یہاں کا تھانیدار اور اپنے مفادات کا نگران بنانے پر تلے ہیں۔
پاکستان آرمی پر ہونے والی جارحیت کا تو انشاء اللہ بھارتیوں کو منہ توڑ جواب مل رہا ہو گا اور الحمد للہ 2013ء میں پاکستان آرمی اس قابل ہو چکی ہے کہ کسی بھی جارح کے دانت توڑ کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دے لیکن بزدل دشمن اور بے غیرت آستین کے سانپوں نے جو محاذ پاکستان کے خلاف کھول رکھا ہے۔ اس پر دشمن کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے اور گزشتہ دنوں وزیرستان میں چھپ کر کیا جانے والا بزدلانہ دھماکہ جس کے نتیجے میں کئی پاکستانی شہید ہوئے ایسی گھناؤنی کارروائی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
شاید پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری طالبان کے بجائے ایک ازبک دہشت گرد گروپ نے قبول کی ہے۔ جس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں غیر ملکی مداخلت کتنی بڑھ چکی ہے۔ اس سے پہلے بھی پشاور ایئر پورٹ پر حملے میں جو دہشت گرد مارے گئے تھے۔ جن کے جسم پر ٹیٹو بنے ہوئے تھے۔ ان کا تعلق بھی دو ممالک ازبکستان اور داغستان سے بتایا گیا تھا۔
یہ غیر ملکی دہشت گرد کس نے پاکستان میں داخل کیے، انہیں اسلحہ اور تربیت کہاں سے ملتی ہے اور ان کی خفیہ پشت پناہی کون کر رہا ہے؟ پاکستان کے ہر باشعور شہری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس کا بخوبی علم ہے۔ دشمن کی شناخت ہونا بھی کسی قوم پر اللہ کا خصوصی احسان ہوتا ہے لیکن کیا صرف دشمن کی شناخت کافی ہے؟ کیا بطور مسلمان پاکستانی ہم پر کوئی فرض عائد نہیں ہوتا؟ ان حالات میں جب پاکستان آرمی کو اندر اور باہر دونوں طرف سے شدید جارحیت کا سامنا ہے ہم ان کے لیے نئے محاذ کھول رہے ہیں۔ اپنی سیاسی انانیت کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے میڈیا کو بھی اپنا ہتھیار بنا رہے ہیں۔ کیا یہ افسوس اور دکھ کا مقام نہیں کہ گزشتہ چار پانچ روز سے ہمارے الیکٹرونک میڈیا نے صرف طاہر القادری فوبیا خود پر طاری کیا ہوا ہے جبکہ بھارتی میڈیا پاکستان آرمی کے خلاف مسلسل زہر اگل رہا ہے اور اپنے عوام میں جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے۔ بھارتی وزراء، وزیراعظم، آرمی چیف پاکستان کے خلاف غلط الزامات کی تکرار کررہے ہیں جبکہ ہمارے وزیر داخلہ بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت پھر عدلیہ سے الجھ رہی ہے۔ افسوس صدر یا وزیراعظم کی طرف سے تادم تحریر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے حوالے سے ایک خبر بھی منظر عام پر نہیں آرہی۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجتماع نے دس نکاتی، عمران خان نے سات نکاتی، علامہ طاہر القادری نے چار نکاتی ایجنڈا جاری کر دیا لیکن کسی نے بھی بھارتی جارحیت پر منہ نہیں کھولا۔ اس بے حسی کو سوائے ملی بے غیرتی کے اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟
بدقسمتی کی انتہا ملاحظہ فرمائیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا وزیراعلیٰ دوبئی میں داد عیش دے رہا ہے جبکہ اس کے شہر میں جنازے رکھ کر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ مرکز میں برسر اقتدار پارٹی کا یہ جیالا کتوں اور موٹر سائیکلوں کا شوقین اور اپنی وزارت اعلیٰ کا آدھے سے زیادہ وقت اپنے صوبے سے باہر گزارنے، عجیب و غریب طرح کی یاوہ گوئی کرکے میڈیا اور حکومت کا تمسخر اڑانے میں یدطولیٰ رکھتا ہے۔ جسے وزیراعظم نے بار بار دبئی سے واپس آکر صورتحال کا سامنا کرنے کی تلقین کی جس کو اس نے پرکاہ جتنی اہمیت نہ دی بالآخر بادل نخواستہ اسے برطرف کرنا پڑا۔ وزیراعظم اسلام آباد سے غائب ہیں۔ اپنے صاحبزادے کی شادی کے جشن میں مگن وزیراعظم کو قطعاً اس سنگین صورتحال کا احساس نہیں جہاں تک صدر محترم کا تعلق ہے۔ ان پر کوئی تبصرہ کرنا صرف وقت اور الفاظ کا ضیاع ہے۔ ان کا تو ایک ہی ایجنڈا ہے جسے پنجابی میں کہتے ہیں۔ ’’ضد میری مجبوری‘‘
ان سنگین حالات میں اچانک بھارت کو کھجلی ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ طویل عرصے سے بھارتی حکومت پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کے لیے پاکستان میں تخریب کاری کروا رہی ہے۔ اب اس نے مقبوضہ کشمیر کے محاذ کو گرم کرنے کے گھناؤنے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔ پاکستان آرمی کے خلاف بزدلانہ حملوں میں ہمارے تین جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ کئی زخمی ہیں اور بھارت کا آرمی چیف یہ دھمکیاں دے رہا ہے کہ ہم پاکستان کو مزا چکھائیں گے۔ ایئر فورس چیف اس سے پہلے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کر چکا ہے۔ پاکستانی احتجاج کو پرکاہ جتنی اہمیت بھی نہیں دی جا رہی۔ حیرت ہے کہ نارمل حالات میں بھی بھارتی آرمی چیف نے نیشنل میڈیا پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان پر گھٹیا الزامات لگائے اور دھمکیاں دیں جس کا عالمی برادری نے قطعاً نوٹس نہیں لیا۔ خصوصاً اس مسئلے پر امریکہ کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے اور بظاہر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اس جارحیت کو مکمل امریکن پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ امریکنوں کے کسی بھی ناجائز مطالبے کے سامنے جنرل کیانی نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے اور امریکنوں کی جان عذاب میں آئی ہوئی ہے وہ اپنی دانست میں افغانستان سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار نہیں انہوں نے اربوں ڈالر اور سینکڑوں جانوں کے نقصان سے یہ تزویراتی برتری حاصل کی ہے اور چین کو قریب سے مانیٹر کر رہے ہیں۔ اب وہ بھارت کو یہاں کا تھانیدار اور اپنے مفادات کا نگران بنانے پر تلے ہیں۔
پاکستان آرمی پر ہونے والی جارحیت کا تو انشاء اللہ بھارتیوں کو منہ توڑ جواب مل رہا ہو گا اور الحمد للہ 2013ء میں پاکستان آرمی اس قابل ہو چکی ہے کہ کسی بھی جارح کے دانت توڑ کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دے لیکن بزدل دشمن اور بے غیرت آستین کے سانپوں نے جو محاذ پاکستان کے خلاف کھول رکھا ہے۔ اس پر دشمن کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے اور گزشتہ دنوں وزیرستان میں چھپ کر کیا جانے والا بزدلانہ دھماکہ جس کے نتیجے میں کئی پاکستانی شہید ہوئے ایسی گھناؤنی کارروائی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
شاید پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری طالبان کے بجائے ایک ازبک دہشت گرد گروپ نے قبول کی ہے۔ جس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں غیر ملکی مداخلت کتنی بڑھ چکی ہے۔ اس سے پہلے بھی پشاور ایئر پورٹ پر حملے میں جو دہشت گرد مارے گئے تھے۔ جن کے جسم پر ٹیٹو بنے ہوئے تھے۔ ان کا تعلق بھی دو ممالک ازبکستان اور داغستان سے بتایا گیا تھا۔
یہ غیر ملکی دہشت گرد کس نے پاکستان میں داخل کیے، انہیں اسلحہ اور تربیت کہاں سے ملتی ہے اور ان کی خفیہ پشت پناہی کون کر رہا ہے؟ پاکستان کے ہر باشعور شہری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس کا بخوبی علم ہے۔ دشمن کی شناخت ہونا بھی کسی قوم پر اللہ کا خصوصی احسان ہوتا ہے لیکن کیا صرف دشمن کی شناخت کافی ہے؟ کیا بطور مسلمان پاکستانی ہم پر کوئی فرض عائد نہیں ہوتا؟ ان حالات میں جب پاکستان آرمی کو اندر اور باہر دونوں طرف سے شدید جارحیت کا سامنا ہے ہم ان کے لیے نئے محاذ کھول رہے ہیں۔ اپنی سیاسی انانیت کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے میڈیا کو بھی اپنا ہتھیار بنا رہے ہیں۔ کیا یہ افسوس اور دکھ کا مقام نہیں کہ گزشتہ چار پانچ روز سے ہمارے الیکٹرونک میڈیا نے صرف طاہر القادری فوبیا خود پر طاری کیا ہوا ہے جبکہ بھارتی میڈیا پاکستان آرمی کے خلاف مسلسل زہر اگل رہا ہے اور اپنے عوام میں جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے۔ بھارتی وزراء، وزیراعظم، آرمی چیف پاکستان کے خلاف غلط الزامات کی تکرار کررہے ہیں جبکہ ہمارے وزیر داخلہ بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت پھر عدلیہ سے الجھ رہی ہے۔ افسوس صدر یا وزیراعظم کی طرف سے تادم تحریر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے حوالے سے ایک خبر بھی منظر عام پر نہیں آرہی۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجتماع نے دس نکاتی، عمران خان نے سات نکاتی، علامہ طاہر القادری نے چار نکاتی ایجنڈا جاری کر دیا لیکن کسی نے بھی بھارتی جارحیت پر منہ نہیں کھولا۔ اس بے حسی کو سوائے ملی بے غیرتی کے اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟
0 comments: