ایم کیو ایم (امریکہ) کے سنٹرل آرگنائزر جنید فہمی نے اقوام متحدہ میں ایک
میمو رنڈم فائل کیا ہے جس میں شکایت کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان
کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کر کے ایم کیو ایم کے ووٹ کو تقسیم کرنے کی سازش
کر رہا ہے موصوف نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ایم کیو ایم کے ساتھ
زیادتی قرار دیا ہے۔
یوں تو ایم کیو ایم کے پاس اپنے ہر غیر آئینی، غیر انسانی اور غیر قانونی کام کے لیے شاندار جواز موجود ہوتا ہے اور وہ اپنے کسی بھی ایکشن کے خلاف جو دلیل پیش کریں اس کے بعد بضد بھی ہوتے ہیں کہ اسے من و عن صحیح تصور کیا جائے کیونکہ ان سے کسی غلط فیصلے یا عمل کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔ الطاف بھائی کی بھارت میں تقریر اور ان کے دہری شہریت کے مسئلے پر قائداعظمؒ کے حوالے سے ہونے والے مباحث اس کی مثال ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بقول شیخ رشید قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لسی پی ہوئی ہے اور وہ بعض انتہائی حساس معاملات پر بھی ’’درگزر‘‘ کی عجیب و غریب پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ اس لیے جس کا جو چاہے وہ کہتا رہے پاکستان میں کہے، بنگلہ دیش میں کہے یا لندن میں پاکستان کا سیاپا کرے۔ میڈیا کو گرما گرم خبر چاہیے خواہ کسی بھی قیمت پر حاصل ہو۔ پاکستان کی سالمیت کے خلاف جس کا جو چاہے ہذیان بکتا رہے ہمارے اینکر صاحبان کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ مادر پدر آزاد میڈیا پالیسی کیا رنگ لائے گی۔ یا تو پاکستان کی تاریخ ہمیں دوبارہ لکھنی پڑے گی یا پھر اس نظریے کو (خاکم بدھن) باطل قرار دینا پڑے گا۔ جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا تھا اور پاکستان کی نئی بنیادیں کھودنا ہوں گی۔
جن لوگوں کو میری طرح ماضی بعید میں بھارتی عقوبت خانوں میں رہنے کا اتفاق ہوا وہ ایک مخصوص ٹرمنالوجی ’’بارہ پتھر‘‘ سے آگاہ ہوں گے۔ میں نے بھارت کی مثال اس لیے دی کہ ہمارے جدید دانشور اٹھتے بیٹھتے اس ہی کی قوالی کرتے رہتے ہیں اس ’’بارہ پتھر‘‘ کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ’’بھارت ماتا‘‘ کے خلاف غداری کرنے والے کسی بھی ملزم یا مجرم کی کم از کم تین نسلوں کا سوشل بائیکاٹ کیا جاتا تھا۔ انہیں کسی بھی صورت سرکاری نوکری نہیں دی جاتی تھی۔ بھارت کی ہر جیل کے باہر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے ’’نفرت اپرادہ (جرم) سے کرو۔ اپرادھی (مجرم) سے نہیں۔‘‘ لیکن اپنے ملک کے خلاف ہونے والی کسی بھی سازش بغاوت، جاسوسی وغیرہ میں ملوث کسی بھی شخص کو بھارتی سیکولر اور آزاد خیال معاشرہ معاف نہیں کرتا۔ عموماً ایسے لوگ اپنے جرم کی سزا بھگتنے کے بعد اپنے گھر نہیں جاتے اپنا ٹھکانہ بدل کر کسی دور دراز سٹیٹ میں گمنامی کی زندگی اپنے ماضی سے کٹ کر گزارتے ہیں۔
ہمارے ہاں الا ماشاء اللہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف دن رات ہذیان بکنے والوں کو، بلوچستان کو آزاد ملک بنانے والوں کو پاکستان کے دفاعی اداروں کی بھد اڑانے والوں کو (اس کے لیے بڑا عجیب جواز تلاش کرتے ہیں کہ ہم ادارے کو نہیں شخصیت کو نشانہ بنا رہے تھے۔ سبحان اللہ) خصوصاً الیکٹرونک میڈیا سر آنکھوں پر بیٹھاتا ہے۔ چند روز پہلے لندن میں ’’پاکستانی فوج کے مظالم کی دہائی دینے اور بلوچستان کو پاکستان کی قید سے آزاد کروانے‘‘ کے نعرے لگانے والے حیر بیار کے انٹرویوز براہ راست لندن میں اس کے عشرت کدے سے براہ راست نشر کرنے کا ہمارے کچھ چینلز کے درمیان باقاعدہ مقابلہ چل رہا تھا۔
اب مینگل صاحب خدا خدا کر کے ’’نیم بروں نیم دروں‘‘ اگر انتخابی عمل کا حصہ بننے پر راضی ہی ہوئے ہیں۔ تو ان کی فرمائشوں کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے۔ انہیں ’’یورپی غیر جانبدار‘‘ میڈیا بھی بلوچستان میں درکار ہے، باغیوں کے خلاف فوج کی کارروائی بھی بند ہونی چاہیے جبکہ انہوں نے ایک روز یہ بیان دے کر کہا کہ ’’پہاڑوں پر موجود دوستوں سے کہہ دیا ہے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں۔‘‘ اگلے ہی روز اپنا بیان واپس لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’میں نے نوجوانوں کو ہتھیار ڈالنے یا پہاڑوں سے اترنے کے لیے نہیں کہا۔۔۔‘‘ حیرت ہے اس کے باوجود ہم ’’جمہوریت‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ کون سا ایسا پنجابی لیڈر ہے جس نے کوئٹہ کراچی جا کر ہمارے ان بلوچ سرداروں کی منت سماجت نہیں کی کہ وہ ہتھیار بند نوجوانوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں لیکن کسی کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اگر ان کے ہاتھ سے یہ’’ کارڈ‘‘ بھی پھسل گیا تو دوبئی لندن اور دیگر یورپی ممالک میں ان کے محلات کیسے آباد رہیں گے؟
جس کا جی چاہے یورپی کمیشن کو آواز دے، جس کا جی چاہے یو این او کی فوج کو بلاتا پھرے اور ہم ڈنڈا لے کر سینکڑوں بے گناہوں کے قاتل انسان نما درندے دہشت گردوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اول تو وہ قابو ہی نہیں آتے اگر آجائیں تو کسی کو ان کے خلاف گواہی کا حوصلہ نہیں ہوتا، ظاہر ہے قانون تو اندھا ہے اسے گواہیاں نہیں ملیں گی تو وہ دہشت گردوں کو سزا کیسے دے؟ لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ جن کے پیاروں کی گردنیں کاٹ کر یہ دہشت گرد پھینکتے ہیں وہ بھی انسان ہیں۔ وہ بھی قانون کی طرح اندھے ہو سکتے ہیں۔ پانچ سال تک ملک کو ’’حلوائی کی دکان اور نانا جی کی فاتحہ‘‘ سمجھ کر چلانے والی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس سلسلے میں کوئی واضع قانون سازی کر سکتے؟ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
وہ ایم کیو ایم جو حکومت کا پانچ سال دھڑلے سے حصہ رہی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان جس شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اس کو بنانے میں ایم کیو ایم کا حصہ بقدر حبثہ کل کی بات ہے۔ آج اس ایم کیو ایم نے یو این او کو پاکستان میں الیکشن کمیشن کے مظالم کی دہائی دینا شروع کر دی محض اس لیے کہ کراچی میں موجود دیگر تمام جماعتیں (سوائے پیپلز پارٹی وہ بھی مصلحتاً ) عدالت میں یہ ثابت کر چکی ہیں کہ یہ حلقہ بندیاں دھونس دھاندلی اور بے ایمانی سے بنائی گئیں اور یہاں لاکھوں کی تعداد میں میں جعلی ووٹوں کا اندراج ہوا وغیرہ وغیرہ۔ اس میں الیکشن کمیشن کا کیا گناہ؟ فخرو بھائی تو روز اول سے بے پناہ شرافت کا نمونہ بنے ہوئے یہ کہتے آرہے ہیں کہ وہ حلقہ بندیوں کے حق میں نہیں؟
کیا پیپلز پارٹی کی طرح ایم کیو ایم بھی صرف ان عدالتی فیصلوں کو صحیح مانتی ہے جو اس کے حق میں، اس کی مرضی کے مطابق ہوں؟ جو جماعت، افراد ، ادارے، انپے ملک کی عدلیہ، فوج کیخلاف غیر ممالک اور یو این او میں فریادی بن کر جاتے ہیں کیا وہ پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو چیلنج نہیں کر رہے؟ پاکستان کا آئین اس سلسلے میں کچھ نہیں کہتا؟ اگر کہتا ہے تو اس پر عمل کون کروائے گا؟ کیا دیگر بہت سے معاملات پر ’’سوموٹو‘‘ لینے والی ہماری محترم عدالتیں اس مسئلے پر خاموش رہیں گی؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنی آزادی رائے کی حدود کا تعین کر لیں؟ شرم کی بات ہے کہ ملک کی اقلیت ہمارے مسیحی بھائیوں کے گھر جلا دیے گئے انہوں نے ہر سطح پر احتجاج کیا لیکن کسی بین الاقوامی ادارے کو اپنا ’’ماموں جان‘‘ نہیں بنایا اور دوسری طرف!
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
یوں تو ایم کیو ایم کے پاس اپنے ہر غیر آئینی، غیر انسانی اور غیر قانونی کام کے لیے شاندار جواز موجود ہوتا ہے اور وہ اپنے کسی بھی ایکشن کے خلاف جو دلیل پیش کریں اس کے بعد بضد بھی ہوتے ہیں کہ اسے من و عن صحیح تصور کیا جائے کیونکہ ان سے کسی غلط فیصلے یا عمل کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔ الطاف بھائی کی بھارت میں تقریر اور ان کے دہری شہریت کے مسئلے پر قائداعظمؒ کے حوالے سے ہونے والے مباحث اس کی مثال ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بقول شیخ رشید قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لسی پی ہوئی ہے اور وہ بعض انتہائی حساس معاملات پر بھی ’’درگزر‘‘ کی عجیب و غریب پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ اس لیے جس کا جو چاہے وہ کہتا رہے پاکستان میں کہے، بنگلہ دیش میں کہے یا لندن میں پاکستان کا سیاپا کرے۔ میڈیا کو گرما گرم خبر چاہیے خواہ کسی بھی قیمت پر حاصل ہو۔ پاکستان کی سالمیت کے خلاف جس کا جو چاہے ہذیان بکتا رہے ہمارے اینکر صاحبان کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ مادر پدر آزاد میڈیا پالیسی کیا رنگ لائے گی۔ یا تو پاکستان کی تاریخ ہمیں دوبارہ لکھنی پڑے گی یا پھر اس نظریے کو (خاکم بدھن) باطل قرار دینا پڑے گا۔ جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا تھا اور پاکستان کی نئی بنیادیں کھودنا ہوں گی۔
جن لوگوں کو میری طرح ماضی بعید میں بھارتی عقوبت خانوں میں رہنے کا اتفاق ہوا وہ ایک مخصوص ٹرمنالوجی ’’بارہ پتھر‘‘ سے آگاہ ہوں گے۔ میں نے بھارت کی مثال اس لیے دی کہ ہمارے جدید دانشور اٹھتے بیٹھتے اس ہی کی قوالی کرتے رہتے ہیں اس ’’بارہ پتھر‘‘ کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ’’بھارت ماتا‘‘ کے خلاف غداری کرنے والے کسی بھی ملزم یا مجرم کی کم از کم تین نسلوں کا سوشل بائیکاٹ کیا جاتا تھا۔ انہیں کسی بھی صورت سرکاری نوکری نہیں دی جاتی تھی۔ بھارت کی ہر جیل کے باہر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے ’’نفرت اپرادہ (جرم) سے کرو۔ اپرادھی (مجرم) سے نہیں۔‘‘ لیکن اپنے ملک کے خلاف ہونے والی کسی بھی سازش بغاوت، جاسوسی وغیرہ میں ملوث کسی بھی شخص کو بھارتی سیکولر اور آزاد خیال معاشرہ معاف نہیں کرتا۔ عموماً ایسے لوگ اپنے جرم کی سزا بھگتنے کے بعد اپنے گھر نہیں جاتے اپنا ٹھکانہ بدل کر کسی دور دراز سٹیٹ میں گمنامی کی زندگی اپنے ماضی سے کٹ کر گزارتے ہیں۔
ہمارے ہاں الا ماشاء اللہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف دن رات ہذیان بکنے والوں کو، بلوچستان کو آزاد ملک بنانے والوں کو پاکستان کے دفاعی اداروں کی بھد اڑانے والوں کو (اس کے لیے بڑا عجیب جواز تلاش کرتے ہیں کہ ہم ادارے کو نہیں شخصیت کو نشانہ بنا رہے تھے۔ سبحان اللہ) خصوصاً الیکٹرونک میڈیا سر آنکھوں پر بیٹھاتا ہے۔ چند روز پہلے لندن میں ’’پاکستانی فوج کے مظالم کی دہائی دینے اور بلوچستان کو پاکستان کی قید سے آزاد کروانے‘‘ کے نعرے لگانے والے حیر بیار کے انٹرویوز براہ راست لندن میں اس کے عشرت کدے سے براہ راست نشر کرنے کا ہمارے کچھ چینلز کے درمیان باقاعدہ مقابلہ چل رہا تھا۔
اب مینگل صاحب خدا خدا کر کے ’’نیم بروں نیم دروں‘‘ اگر انتخابی عمل کا حصہ بننے پر راضی ہی ہوئے ہیں۔ تو ان کی فرمائشوں کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے۔ انہیں ’’یورپی غیر جانبدار‘‘ میڈیا بھی بلوچستان میں درکار ہے، باغیوں کے خلاف فوج کی کارروائی بھی بند ہونی چاہیے جبکہ انہوں نے ایک روز یہ بیان دے کر کہا کہ ’’پہاڑوں پر موجود دوستوں سے کہہ دیا ہے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں۔‘‘ اگلے ہی روز اپنا بیان واپس لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’میں نے نوجوانوں کو ہتھیار ڈالنے یا پہاڑوں سے اترنے کے لیے نہیں کہا۔۔۔‘‘ حیرت ہے اس کے باوجود ہم ’’جمہوریت‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ کون سا ایسا پنجابی لیڈر ہے جس نے کوئٹہ کراچی جا کر ہمارے ان بلوچ سرداروں کی منت سماجت نہیں کی کہ وہ ہتھیار بند نوجوانوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں لیکن کسی کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اگر ان کے ہاتھ سے یہ’’ کارڈ‘‘ بھی پھسل گیا تو دوبئی لندن اور دیگر یورپی ممالک میں ان کے محلات کیسے آباد رہیں گے؟
جس کا جی چاہے یورپی کمیشن کو آواز دے، جس کا جی چاہے یو این او کی فوج کو بلاتا پھرے اور ہم ڈنڈا لے کر سینکڑوں بے گناہوں کے قاتل انسان نما درندے دہشت گردوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اول تو وہ قابو ہی نہیں آتے اگر آجائیں تو کسی کو ان کے خلاف گواہی کا حوصلہ نہیں ہوتا، ظاہر ہے قانون تو اندھا ہے اسے گواہیاں نہیں ملیں گی تو وہ دہشت گردوں کو سزا کیسے دے؟ لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ جن کے پیاروں کی گردنیں کاٹ کر یہ دہشت گرد پھینکتے ہیں وہ بھی انسان ہیں۔ وہ بھی قانون کی طرح اندھے ہو سکتے ہیں۔ پانچ سال تک ملک کو ’’حلوائی کی دکان اور نانا جی کی فاتحہ‘‘ سمجھ کر چلانے والی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس سلسلے میں کوئی واضع قانون سازی کر سکتے؟ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
وہ ایم کیو ایم جو حکومت کا پانچ سال دھڑلے سے حصہ رہی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان جس شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اس کو بنانے میں ایم کیو ایم کا حصہ بقدر حبثہ کل کی بات ہے۔ آج اس ایم کیو ایم نے یو این او کو پاکستان میں الیکشن کمیشن کے مظالم کی دہائی دینا شروع کر دی محض اس لیے کہ کراچی میں موجود دیگر تمام جماعتیں (سوائے پیپلز پارٹی وہ بھی مصلحتاً ) عدالت میں یہ ثابت کر چکی ہیں کہ یہ حلقہ بندیاں دھونس دھاندلی اور بے ایمانی سے بنائی گئیں اور یہاں لاکھوں کی تعداد میں میں جعلی ووٹوں کا اندراج ہوا وغیرہ وغیرہ۔ اس میں الیکشن کمیشن کا کیا گناہ؟ فخرو بھائی تو روز اول سے بے پناہ شرافت کا نمونہ بنے ہوئے یہ کہتے آرہے ہیں کہ وہ حلقہ بندیوں کے حق میں نہیں؟
کیا پیپلز پارٹی کی طرح ایم کیو ایم بھی صرف ان عدالتی فیصلوں کو صحیح مانتی ہے جو اس کے حق میں، اس کی مرضی کے مطابق ہوں؟ جو جماعت، افراد ، ادارے، انپے ملک کی عدلیہ، فوج کیخلاف غیر ممالک اور یو این او میں فریادی بن کر جاتے ہیں کیا وہ پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو چیلنج نہیں کر رہے؟ پاکستان کا آئین اس سلسلے میں کچھ نہیں کہتا؟ اگر کہتا ہے تو اس پر عمل کون کروائے گا؟ کیا دیگر بہت سے معاملات پر ’’سوموٹو‘‘ لینے والی ہماری محترم عدالتیں اس مسئلے پر خاموش رہیں گی؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنی آزادی رائے کی حدود کا تعین کر لیں؟ شرم کی بات ہے کہ ملک کی اقلیت ہمارے مسیحی بھائیوں کے گھر جلا دیے گئے انہوں نے ہر سطح پر احتجاج کیا لیکن کسی بین الاقوامی ادارے کو اپنا ’’ماموں جان‘‘ نہیں بنایا اور دوسری طرف!
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
well written
ReplyDelete