نومبر 2012ء یعنی 7محرم کو 8ترقی پذیر ممالک کی سربراہ کانفرنس کا انعقاد
برمحل نہ تھا کیوں کہ بیشتر مسلم آبادی حضرت حسینؓ اور شہدائے کربلا کی
یاد میں محو رہتی ہے، اس لیے دیگر تقاریب اور جشن منانے سے اجتناب کرتی ہے۔
منجملہ اور اسباب کے یہ خاص وجہ تھی کہ پاکستان کے عوام نے اس تقریب پر
کوئی توجہ نہیں دی۔ اس تنظیم کو بنے 15سال ہونے کو آئے ہیں اور اسلام آباد
کانفرنس و شمار کرتے ہوئے اس دورانیے میں صرف آٹھ سربراہ اجلاس منعقد ہوئے
لیکن نہ تو رکن ممالک نائیجریا، مصر، ترکی، ایران، پاکستان، بنگلہ دیش،
ملائیشیا اور انڈونیشیا میں تجارت یا سرمایہ کاری میں کوئی خاطر خواہ اضافہ
ہوا، جس سے مطلوبہ خوشحالی کا دور دورہ ہوتا، البتہ پاکستان میں غربت میں
اضافہ ضرور ہوا، جو تیزی سے جاری ہے جبکہ سرمایہ کاری میں تشویشناک حد تک
کمی واقع ہوئی، بلکہ رہا سہا سرمایہ بھی فرار ہو رہا ہے اور دبئی، بنگلہ
دیش، ملائیشیا میں لگایا جا رہا ہے، جس کا فائدہ اس تنظیم کے ان ملکوں کو
تو ضرور ہوا لیکن پاکستان خسارے میں ہی رہا۔ 22نومبر کو اعلان اسلام آباد
اور ڈی ایٹ کے مستقبل کی تصویر دل کے بہلانے کو کافی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا
ہے کہ اس تنظیم کی بعض رکن حکومتوں میں اسلام آباد کی کانفرنس میں شرکت کے
لئے گرم جوشی نہیں تھی۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے تو پاکستان
کی وزیر خارجہ حنا ربانی سے ، جو انہیں مدعو کرنے ڈھاکے گئی تھیں، اپنی
شرکت کو 71ء میں بنگلہ دیش میں پاکستان کی فوجی کارروائی پر باضابطہ معافی
سے مشروط کر دی تھی اور قسم کھانے کے لیے اپنے مشیر گوہر رضوی کو اسلام
آباد بھیج دیا تھا، جبکہ ملائیشیا کے وزیراعظم نے شرکت سے معذوری کا اظہار
کیا تھا لیکن اپنے نائب وزیراعظم کو نامزید کر دیا، جنہوں نے شرکت کی۔ اسی
طرح مصر کے صدر محمد مرسی بھی حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی کرانے میں
ایسے الجھے ہوئے تھے کہ وعدہ کرنے کے باوجود نہیں آسکے اور اپنے نائب صدر
کو کانفرنس کے لیے نامزید کر دیا۔ تاہم ترکی کے وزیراعظم طیب اردوان اور
ایران کے صدر احمدی نژاد نے کانفرنس میں نمایاں کردار ادا کیا اور غیر حاضر
سربراہان ریاست کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ انڈونیشیا اورنائیجریا کے
سربراہان نے بھی کانفرنس میں بھرپور شرکت کی۔
ایک بات ذہن میں ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے کہ آخر ڈی ایٹ میں سعودی عرب کو کیوں نہیں شامل کیا گیا، جو اپنے وافر وسائل، سرمایہ اور تیل کی دولت کے باعث رکن ممالک کا اچھا تجارتی شراکت دار ہو سکتا تھا۔ اور ان کی توانائی کے بحران کو دور کرنے میں انتہائی موثر کردار ادا کر سکتا تھا۔ کیا ایسے اہم ملک کو اس لیے نظر انداز کیا گیا کہ D-8 نے ’’خوشحالی اور اقتصادی ترقی‘‘ کو مغربی طرز کی ’’جمہوریت‘‘ سے وابستہ کر رکھا ہے، جو رکن ممالک میں دو عشرے پہلے بحال ہوئی تھی، اگر ایسا ہے تو کانفرنس میں پر امن بقائے باہمی پر کیوں زور دیا گیا، کیونکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ریاستوں کو بلالحاظ سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی نظام آپس میں تعاون کرنا چاہیے لیکن ڈی۔ایٹ کے اعلامیے میں رکن ریاستوں کے سربراہوں نے ’’امن، جمہوریت، ترقی، مذاکرات، یکجہتی، رواداری اور اعتدال‘‘ (روشن خیال) جیسی بنیاد اقدار کے بارے میں تجدید عہد کیا جو عوام کی خوشحالی، فلاح اور باہمی اقتصادی تعاون کے لیے ناگزیر ہیں۔
سعودی عرب اورعوامی جمہوریہ چین ان معنوں میں جمہوریتیں ہیں، نہ ہی ان دونوں نظریاتی ریاستوں میں بالترتیب اسلام اور اشتراکیت مخالف عناصر کو حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کی اجازت ہے تو کیا ان ممالک میں عوام خوشحال نہیں ہیں اور کیا یہ دونوں ریاستیں دوسری ریاستوں سے اقتصادی اور سیاسی تعاون نہیں کرتیں؟ علاقائی اور عالمی امن و استحکام کے لیے موثر کردار ادا نہیں کرتیں؟ پھر ڈی۔ایٹ جیسی تنظیم جس کا مقصد تجارت اورسرمایہ کاری ہے، امریکی پروپیگنڈے کی آلہ کار کیوں بن گئی ہے؟ کیا اقتصادی تعاون صرف ’’جمہوری‘‘ ممالک کے مابین ہی ممکن ہے؟ یہی نہیں اعلان میں انتہا پسندی کا سد باب بھی ان کے فرائض میں شامل کر دیا گیا ہے تاکہ باقی ماندہ سات ریاستوں کو بھی پاکستان کی طرح امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا جائے اور ان کا امن و امان بھی غارت کر دیا جائے۔
ایک بات ذہن میں ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے کہ آخر ڈی ایٹ میں سعودی عرب کو کیوں نہیں شامل کیا گیا، جو اپنے وافر وسائل، سرمایہ اور تیل کی دولت کے باعث رکن ممالک کا اچھا تجارتی شراکت دار ہو سکتا تھا۔ اور ان کی توانائی کے بحران کو دور کرنے میں انتہائی موثر کردار ادا کر سکتا تھا۔ کیا ایسے اہم ملک کو اس لیے نظر انداز کیا گیا کہ D-8 نے ’’خوشحالی اور اقتصادی ترقی‘‘ کو مغربی طرز کی ’’جمہوریت‘‘ سے وابستہ کر رکھا ہے، جو رکن ممالک میں دو عشرے پہلے بحال ہوئی تھی، اگر ایسا ہے تو کانفرنس میں پر امن بقائے باہمی پر کیوں زور دیا گیا، کیونکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ریاستوں کو بلالحاظ سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی نظام آپس میں تعاون کرنا چاہیے لیکن ڈی۔ایٹ کے اعلامیے میں رکن ریاستوں کے سربراہوں نے ’’امن، جمہوریت، ترقی، مذاکرات، یکجہتی، رواداری اور اعتدال‘‘ (روشن خیال) جیسی بنیاد اقدار کے بارے میں تجدید عہد کیا جو عوام کی خوشحالی، فلاح اور باہمی اقتصادی تعاون کے لیے ناگزیر ہیں۔
سعودی عرب اورعوامی جمہوریہ چین ان معنوں میں جمہوریتیں ہیں، نہ ہی ان دونوں نظریاتی ریاستوں میں بالترتیب اسلام اور اشتراکیت مخالف عناصر کو حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کی اجازت ہے تو کیا ان ممالک میں عوام خوشحال نہیں ہیں اور کیا یہ دونوں ریاستیں دوسری ریاستوں سے اقتصادی اور سیاسی تعاون نہیں کرتیں؟ علاقائی اور عالمی امن و استحکام کے لیے موثر کردار ادا نہیں کرتیں؟ پھر ڈی۔ایٹ جیسی تنظیم جس کا مقصد تجارت اورسرمایہ کاری ہے، امریکی پروپیگنڈے کی آلہ کار کیوں بن گئی ہے؟ کیا اقتصادی تعاون صرف ’’جمہوری‘‘ ممالک کے مابین ہی ممکن ہے؟ یہی نہیں اعلان میں انتہا پسندی کا سد باب بھی ان کے فرائض میں شامل کر دیا گیا ہے تاکہ باقی ماندہ سات ریاستوں کو بھی پاکستان کی طرح امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا جائے اور ان کا امن و امان بھی غارت کر دیا جائے۔
0 comments: