بھارت جو بھی کہتا پھرے، اس کے حواری جو بھی راگ الاپیں، پاکستان کے ’’صلح
پسند‘‘ حکمران جو بھی کہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کشمیریوں نے
بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔ ظلم و ستم اور قہروجبر کی رات خواہ
جتنی بھی طویل ہو، آخر کار وہ کٹ کر اور ایک ایسے اجالے میں تبدیل ہو کر
رہتی ہے جو ظالم و جابر کے چہرے سے نقاب نوچ کر رکھ دے۔ کیا کشمیر کی جنت
نظیر وادی میں بھی اس اجالے کا وقت ہوا چاہتا ہے، جو 65 سال پر محیط بھارتی
سامراج کے ظلم و ستم کی گھور رات کا سینہ شق کر دے؟ حالات و واقعات کا
تجزیہ کیا جائے تو یہ مرحلہ اب قریب دکھائی دیتا ہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی
کی باگ ڈور اب مظلوم قوم کی جس نسل کے ہاتھ میں آچکی ہے، اس کے ماتھے پر
عزم و ہمت کا جو نشان ثبت ہے وہ اس بات کی وضاحت کیے دیتا ہے کہ وادی میں
آزادی کی صبح کا طلوع اب نوشتہ دیوار ہے۔ یوں تو غیور کشمیری قوم کی واضح
اکثریت نے ان 65 سالوں میں
ایک دن کے لئے بھی بھارت کی مسلط کردہ غلامی قبول نہیں کی اور اس کے خلاف اپنے حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد تسلسل کے ساتھ جاری رکھی۔ 2010ء میں شوپیاں نامی قصبے میں درندہ صفت بھارتی فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں ایک عفت مآب بہن کی مظلومانہ شہادت کے واقعے نے پوری وادی کو جس طرح انتقام کا شعلہ جوالہ بنا دیا، اس کی لپک ہے کہ مسلسل بھارتی تسلط کو گھیر رہی ہے۔ سانحہ شوپیاں کے بعد بھارتی جبر کے خلاف غم و غصے کے اظہار کا جو سلسلہ چل نکلا وہ مختلف شکلوں میں جاری رہتے ہوئے آج اپنے جوبن پر ہے اور اب یہ ایک معمول بن گیا ہے کہ پرامن احتجاج کو روکنے کے لئے جونہی قابض اور کٹھ پتلی انتظامیہ کوئی حماقت کر بیٹھتی ہیں اس کا رد عمل اندازوں سے کہیں بڑھ کر شدید ہوتا ہے۔ پے در پے ہونے والے ان مظاہروں نے تحریک آزادی کشمیر کو وہ توانائی بخشی ہے کہ اب اسے کسی قیادت کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے وادی میں ابلاغ کے تمام ذرائع آزاد اخبارات و چینلوں اور انٹرنیٹ سے لے کر ایس ایم ایس تک پر پابندی کے باوجود وادی کے کسی بھی حصے میں جونہی بھارتی مظالم کا ہلکا سا بھی مظاہرہ سامنے آتا ہے، اس کی خبر میکانکی انداز میں آناً فاناً پوری وادی میں پھیل جاتی ہے اور پھر ہر عمر کے کشمیری باشندے آتش بجاں ہو کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ آئے روز کے ان احتجاجی مظاہروں نے کٹھ پتلی انتظامیہ کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔ جس سے ہر آنے والے دن کشمیر پر بھارتی تسلط کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں حریت پسند رہنما یاسر ملک کے گھر کے سامنے کھیلتے ہوئے بچوں پر ظالم فوج کی بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 11 سالہ لڑکے کی شہادت کے المناک واقعے نے بھی چنگاری کو ہوا دینے کا ایسا ہی کام سرانجام دیا اور خبر پھیلتے ہی کشمیری عوام کرفیو توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔ یہ سلسلہ تب سے آج تک جاری و ساری ہے گو کہ ہم نے اب ان خبروں پر توجہ دینا چھوڑ دی ہے لیکن کشمیریوں نے اپنی جدوجہد میں کسی کمزوری کو مظاہرہ نہیں کیا۔
حریت کانفرنس کی اس تحریک کو اگر 1946ء کی اس تحریک کے پس منظر میں دیکھا جائے جو ہندوستان کے باشندوں نے برطانوی استعمار کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کے زیر عنوان چلائی تھی، تو نیک شگون کے طور پر یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ کشمیریوں کی تحریک بھی برطانوی استعمار کی طرح بھارتی سامراج کو بھی خطہ جنت نظیر سے اپنا بوریا بستر گول کرنے پر انشاء اللہ مجبور کر دے گی۔ کم از کم بھارت کی حکمران کانگریس پارٹی کو تو اس کا احساس ہونا چاہیے کہ انگریز استعمار کے خلاف اس تحریک کی قیادت اس کے ہاتھ میں تھی۔ ’’کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک سے متعلق یہ نیک شگون محض خوش فہمی پر مبنی نہیں، بلکہ زمینی حقائق بھی اس کی بھرپور موافقت کرتے ہیں۔ بھارت کی وہ قیادت جس کی سوئی 65 سال سے ’’اٹوٹ انگ‘‘ پر اٹکی چلی آ رہی تھی اور کشمیریوں کو کسی طرح حق خودارادیت دینے کے بارے میں سوچنے تک کی روادار نہیں تھی، آج اس کی زبان پر مذاکرات کی باتیں ہیں اور بھارتی قیادت ظلم و ستم کا ہر حربہ آزمانے کے بعد اب حریت قیادت کو پٹانے کے گر آزمانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پہلی مرتبہ کسی ’’وزیراعظم ہند‘‘ نے کشمیریوں پر ہاتھ ہلکا رکھنے کی بات کی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ظالم اب تھک چکا ہے، ظلم وجور کے حربے آزما آزما اس کے ہاتھ شل ہو چکے ہیں مگر شاید اب وقت بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ کشمیری اپنی 65 سالہ تحریک کے اس اہم مرحلے سے پیچھے ہٹنے کو کسی طرح تیار نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کی موجودہ تحریک جو حالات و واقعات کی روشنی میں فیصلہ کن موڑ پر نظر آ رہی ہے، پاکستان سمیت کسی کی بھی بیرونی مدد کی مرہون نہیں۔ یہ تحریک مکمل طور پر فرزندان زمین کی شروع کردہ ہے، اس کا کریڈٹ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔ یہ تحریک شروع ہی ایسے وقت اور ماحول میں ہوئی ہے جب کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کا ’’احسان‘‘ کرنے والا پاکستان امریکی احکام پر مکمل طور پر ان سے منہ موڑے ہوئے ہے، جبکہ حکومت کی متابعت میں پاکستان کا میڈیا بھی تحریک آزادی کشمیر، کشمیر میں روا رکھے جانے والے بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی کے واقعات سے آنکھیں پھیرے ہوئے ہے۔ یہ صورت حال پاکستان اور پاکستانی قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ نصف صدی کشمیریوں کی وکالت کرنے کے باوجود جب مقدمہ جیتنے کی نوبت قریب نظر آ رہی ہے، اس کا ’’وکیل‘‘ کہاں کھڑا ہے۔ کیا کشمیری اسے بھلا پائیں گے؟ شاید کبھی نہیں۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ 65 سال سے ہم جس مقصد کے لئے قربانیاں دیتے آ رہے ہیں جس مسئلے پر ہم نے آدھی دنیا کو اپنا دشمن بنا رکھا ہے۔ بھارت سے کئی جنگیں لڑ چکیں ہیں آج ہم اس مسئلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ہماری نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ جس کا اب ہم واقعی حصہ بن چکے ہیں۔
پاکستان کو اب تک دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں کئی کھرب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس ملک کو احباب پاکستان سے خاطر خواہ امداد تو ملنا درکنار خود امریکہ بھی جس کی خاطر افواج پاکستان اس جنگ میں جان کی بازی لگا رہی ہیں پاکستان کو ہونے والے اس بھاری نقصان کی جس نے اس کی حقیقت کو کھوکھلا کر دیا ہے کوئی پرواہ نہیں۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 2004-05ء تک 2 کھرب 59 ارب 10 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا جو 2008-09ء میں بڑھ کر 6 کھرب 77 ارب 79 کروڑ روپے ہو گیا۔ اس جنگ میں ہونے والا براہ راست نقصان ایک کھرب 14 ارب 3 کروڑ روپے تک جا پہنچا ہے جب کہ بالواسطہ نقصانات جو پاکستان کو برآمدات، غیر ملکی سرمایہ کاری، نجکاری، صنعتی پیدوار، محصولات وغیرہ کی مد میں اٹھانے پڑے 2008-09ء میں 5 کھرب 63 ارب 76 کروڑ روپے تک جا پہنچے۔ یہ اعدادوشمار پووزٹی ریڈکشن اسٹریٹجی پیپر ii (پی ایس پی ii) تیار کردہ فنانس ڈویژن پاکستان سے اخذ کردہ ہیں۔
اس جنگ پر آنے والی یہ لاگت حالیہ برسوں کے دوران ملک میں غربت میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔ انسداد دہشت گردی مہم میں پاکستان کی شرکت، متاثرہ خطے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا سبب بنی ہے۔ مسلسل بم دھماکوں، امن و امان کی ابتر صورتحال، مقامی آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی نے ملک کے سماجی اقتصادی تانے بانے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں۔ امن و امان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی نے ملکی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کسی اہم سرمایہ کاری سے گریزاں کر دیا ہے۔اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے جو پورے ملک پر مسلط ہے۔ ایک اسٹریٹجک پالیسی وضع کر رہی ہے۔ پھر بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ملکی معیشت کو جس بری طرح مفلوج کیا ہے اس کے تدارک کے لئے کئی سال درکار ہوں گے۔ دیگر اسباب و عوامل بھی پاکستان کی حالیہ معاشی مشکلات کے ذمہ دار ہیں ان میں آمدنی سے زائد اخراجات، برآمدات سے زائد درآمدات اور ناکافی سماجی خدمات شامل ہیں جن کے ذریعے غریبوں کی مالی حالت کو بہتر بنا کر انہیں ملک کے معاشی استحکام اور خوشحالی کی جدوجہد میں شریک کیا جا سکتا ہے۔
پی آر ایس پی ii میں جو فنانس ڈویژن کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو پیش کی گئی کہا گیا ہے ’’میکرو اکنامک کے غیر مستحکم ہونے کے حالیہ اسباب میں ملک میں امن و امان کی صورتحال، خوراک اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اچانک اضافہ بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں میں عدم استحکام اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی سے جنگ میں پاکستان کے ایک فرنٹ لائن ملک ہونے کے باعث اسے پہنچنے والے براہ راست اور بالواسطہ نقصانات شامل ہیں ان مسائل کے باعث ملک کو اس وقت انتہائی اہم چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں بڑھتا ہوا مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، شرح نمو کی ابتری اور کم ہوتے ہوئے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر شامل ہیں۔حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ پاکستان کی ترقی میں ایک اہم رکاوٹ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا کردار ہے ملک کو انسداد دہشت گردی کی مہم میں شراکت دار بننے کے باعث بھاری سماجی اور اقتصادی نقصانات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ انسداد دہشت گردی مہم جو امریکہ میں 2001ء میں نائن الیون کے واقعے کے بعد شروع ہوئی پاکستان کے بجٹ پر بھاری بوجھ بن گئی ہے کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بجٹ میں زیادہ رقوم مختص کرنی پڑیں جس کے باعث پورے پاکستان بالخصوص فاٹا اور خیبر پختونخوا کے لئے ترقیاتی وسائل میں کمی کرنی پڑی۔ علاوہ ازیں انسانی مصائب و مشکلات اور لوگوں کی نقل مکانی اور دوبارہ بحالی پر بھی بھاری رقم خرچ ہو رہی ہے۔بہت سے ترقیاتی پروجیکٹس جو پہلے متاثرہ علاقوں میں شروع کیے گئے تھے تاخیر کا شکار ہیں اور اس کے نتیجے ان پر آنے والے لاگت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ انسداد دہشت گردی مہم کے آغاز کے وقت سے ہی ہر طرف ایک بے یقینی کی فضا پیدا ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں ملکی معاشی سرگرمیوں میں سست رفتاری آگئی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے احتراز کر رہے ہیں خدشہ ہے کہ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری پر جس میں کئی برسوں سے اضافہ ہو رہا تھا فاٹا اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں جاری انسداد دہشت گردی مہم پر مخالف اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے علاوہ ملک کو درپیش خطرات میں بھی اضافہ ہو گا جس کے باعث مارکیٹ سے قرضوں کے حصول پر زیادہ اخراجات ہوں گے۔
قیام پاکستان پر قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ ہماری ناقص پالیسیوں ، بدعنوانیوں اور وطن فروشی کی وجہ سے اس شہ رگ پر براہمن سامراج نے جو خونی پنجے گاڑے تھے ان میں روز بروز مضبوطی آتی جا رہی ہے۔ ہمارے دریا خشک ہو رہے ہیں عوام کو ذہنی مریض بنایا جا رہا ہے جس کی واحد وجہ پاکستان کے اساسی نظریات سے رو گردانی ہے۔ کشمیر تو بہرحال آزاد ہو گا یہ الگ بات کہ اس آزادی کی قیمت کتنی چکانی پڑتی ہے 5فروری کا پاکستانیوں کو یہ پیغام ہے کہ اپنے ان عاقبت اندیش حکمرانوں سے باخبر رہیں جو ان کی 65سالہ قربانیوں پر مٹی ڈال کر انہیں دفن کرنے پر تلے ہیں۔
ایک دن کے لئے بھی بھارت کی مسلط کردہ غلامی قبول نہیں کی اور اس کے خلاف اپنے حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد تسلسل کے ساتھ جاری رکھی۔ 2010ء میں شوپیاں نامی قصبے میں درندہ صفت بھارتی فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں ایک عفت مآب بہن کی مظلومانہ شہادت کے واقعے نے پوری وادی کو جس طرح انتقام کا شعلہ جوالہ بنا دیا، اس کی لپک ہے کہ مسلسل بھارتی تسلط کو گھیر رہی ہے۔ سانحہ شوپیاں کے بعد بھارتی جبر کے خلاف غم و غصے کے اظہار کا جو سلسلہ چل نکلا وہ مختلف شکلوں میں جاری رہتے ہوئے آج اپنے جوبن پر ہے اور اب یہ ایک معمول بن گیا ہے کہ پرامن احتجاج کو روکنے کے لئے جونہی قابض اور کٹھ پتلی انتظامیہ کوئی حماقت کر بیٹھتی ہیں اس کا رد عمل اندازوں سے کہیں بڑھ کر شدید ہوتا ہے۔ پے در پے ہونے والے ان مظاہروں نے تحریک آزادی کشمیر کو وہ توانائی بخشی ہے کہ اب اسے کسی قیادت کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے وادی میں ابلاغ کے تمام ذرائع آزاد اخبارات و چینلوں اور انٹرنیٹ سے لے کر ایس ایم ایس تک پر پابندی کے باوجود وادی کے کسی بھی حصے میں جونہی بھارتی مظالم کا ہلکا سا بھی مظاہرہ سامنے آتا ہے، اس کی خبر میکانکی انداز میں آناً فاناً پوری وادی میں پھیل جاتی ہے اور پھر ہر عمر کے کشمیری باشندے آتش بجاں ہو کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ آئے روز کے ان احتجاجی مظاہروں نے کٹھ پتلی انتظامیہ کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔ جس سے ہر آنے والے دن کشمیر پر بھارتی تسلط کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں حریت پسند رہنما یاسر ملک کے گھر کے سامنے کھیلتے ہوئے بچوں پر ظالم فوج کی بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 11 سالہ لڑکے کی شہادت کے المناک واقعے نے بھی چنگاری کو ہوا دینے کا ایسا ہی کام سرانجام دیا اور خبر پھیلتے ہی کشمیری عوام کرفیو توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔ یہ سلسلہ تب سے آج تک جاری و ساری ہے گو کہ ہم نے اب ان خبروں پر توجہ دینا چھوڑ دی ہے لیکن کشمیریوں نے اپنی جدوجہد میں کسی کمزوری کو مظاہرہ نہیں کیا۔
حریت کانفرنس کی اس تحریک کو اگر 1946ء کی اس تحریک کے پس منظر میں دیکھا جائے جو ہندوستان کے باشندوں نے برطانوی استعمار کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کے زیر عنوان چلائی تھی، تو نیک شگون کے طور پر یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ کشمیریوں کی تحریک بھی برطانوی استعمار کی طرح بھارتی سامراج کو بھی خطہ جنت نظیر سے اپنا بوریا بستر گول کرنے پر انشاء اللہ مجبور کر دے گی۔ کم از کم بھارت کی حکمران کانگریس پارٹی کو تو اس کا احساس ہونا چاہیے کہ انگریز استعمار کے خلاف اس تحریک کی قیادت اس کے ہاتھ میں تھی۔ ’’کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک سے متعلق یہ نیک شگون محض خوش فہمی پر مبنی نہیں، بلکہ زمینی حقائق بھی اس کی بھرپور موافقت کرتے ہیں۔ بھارت کی وہ قیادت جس کی سوئی 65 سال سے ’’اٹوٹ انگ‘‘ پر اٹکی چلی آ رہی تھی اور کشمیریوں کو کسی طرح حق خودارادیت دینے کے بارے میں سوچنے تک کی روادار نہیں تھی، آج اس کی زبان پر مذاکرات کی باتیں ہیں اور بھارتی قیادت ظلم و ستم کا ہر حربہ آزمانے کے بعد اب حریت قیادت کو پٹانے کے گر آزمانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پہلی مرتبہ کسی ’’وزیراعظم ہند‘‘ نے کشمیریوں پر ہاتھ ہلکا رکھنے کی بات کی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ظالم اب تھک چکا ہے، ظلم وجور کے حربے آزما آزما اس کے ہاتھ شل ہو چکے ہیں مگر شاید اب وقت بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ کشمیری اپنی 65 سالہ تحریک کے اس اہم مرحلے سے پیچھے ہٹنے کو کسی طرح تیار نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کی موجودہ تحریک جو حالات و واقعات کی روشنی میں فیصلہ کن موڑ پر نظر آ رہی ہے، پاکستان سمیت کسی کی بھی بیرونی مدد کی مرہون نہیں۔ یہ تحریک مکمل طور پر فرزندان زمین کی شروع کردہ ہے، اس کا کریڈٹ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔ یہ تحریک شروع ہی ایسے وقت اور ماحول میں ہوئی ہے جب کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کا ’’احسان‘‘ کرنے والا پاکستان امریکی احکام پر مکمل طور پر ان سے منہ موڑے ہوئے ہے، جبکہ حکومت کی متابعت میں پاکستان کا میڈیا بھی تحریک آزادی کشمیر، کشمیر میں روا رکھے جانے والے بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی کے واقعات سے آنکھیں پھیرے ہوئے ہے۔ یہ صورت حال پاکستان اور پاکستانی قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ نصف صدی کشمیریوں کی وکالت کرنے کے باوجود جب مقدمہ جیتنے کی نوبت قریب نظر آ رہی ہے، اس کا ’’وکیل‘‘ کہاں کھڑا ہے۔ کیا کشمیری اسے بھلا پائیں گے؟ شاید کبھی نہیں۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ 65 سال سے ہم جس مقصد کے لئے قربانیاں دیتے آ رہے ہیں جس مسئلے پر ہم نے آدھی دنیا کو اپنا دشمن بنا رکھا ہے۔ بھارت سے کئی جنگیں لڑ چکیں ہیں آج ہم اس مسئلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ہماری نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ جس کا اب ہم واقعی حصہ بن چکے ہیں۔
پاکستان کو اب تک دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں کئی کھرب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس ملک کو احباب پاکستان سے خاطر خواہ امداد تو ملنا درکنار خود امریکہ بھی جس کی خاطر افواج پاکستان اس جنگ میں جان کی بازی لگا رہی ہیں پاکستان کو ہونے والے اس بھاری نقصان کی جس نے اس کی حقیقت کو کھوکھلا کر دیا ہے کوئی پرواہ نہیں۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 2004-05ء تک 2 کھرب 59 ارب 10 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا جو 2008-09ء میں بڑھ کر 6 کھرب 77 ارب 79 کروڑ روپے ہو گیا۔ اس جنگ میں ہونے والا براہ راست نقصان ایک کھرب 14 ارب 3 کروڑ روپے تک جا پہنچا ہے جب کہ بالواسطہ نقصانات جو پاکستان کو برآمدات، غیر ملکی سرمایہ کاری، نجکاری، صنعتی پیدوار، محصولات وغیرہ کی مد میں اٹھانے پڑے 2008-09ء میں 5 کھرب 63 ارب 76 کروڑ روپے تک جا پہنچے۔ یہ اعدادوشمار پووزٹی ریڈکشن اسٹریٹجی پیپر ii (پی ایس پی ii) تیار کردہ فنانس ڈویژن پاکستان سے اخذ کردہ ہیں۔
اس جنگ پر آنے والی یہ لاگت حالیہ برسوں کے دوران ملک میں غربت میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔ انسداد دہشت گردی مہم میں پاکستان کی شرکت، متاثرہ خطے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا سبب بنی ہے۔ مسلسل بم دھماکوں، امن و امان کی ابتر صورتحال، مقامی آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی نے ملک کے سماجی اقتصادی تانے بانے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں۔ امن و امان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی نے ملکی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کسی اہم سرمایہ کاری سے گریزاں کر دیا ہے۔اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے جو پورے ملک پر مسلط ہے۔ ایک اسٹریٹجک پالیسی وضع کر رہی ہے۔ پھر بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ملکی معیشت کو جس بری طرح مفلوج کیا ہے اس کے تدارک کے لئے کئی سال درکار ہوں گے۔ دیگر اسباب و عوامل بھی پاکستان کی حالیہ معاشی مشکلات کے ذمہ دار ہیں ان میں آمدنی سے زائد اخراجات، برآمدات سے زائد درآمدات اور ناکافی سماجی خدمات شامل ہیں جن کے ذریعے غریبوں کی مالی حالت کو بہتر بنا کر انہیں ملک کے معاشی استحکام اور خوشحالی کی جدوجہد میں شریک کیا جا سکتا ہے۔
پی آر ایس پی ii میں جو فنانس ڈویژن کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو پیش کی گئی کہا گیا ہے ’’میکرو اکنامک کے غیر مستحکم ہونے کے حالیہ اسباب میں ملک میں امن و امان کی صورتحال، خوراک اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اچانک اضافہ بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں میں عدم استحکام اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی سے جنگ میں پاکستان کے ایک فرنٹ لائن ملک ہونے کے باعث اسے پہنچنے والے براہ راست اور بالواسطہ نقصانات شامل ہیں ان مسائل کے باعث ملک کو اس وقت انتہائی اہم چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں بڑھتا ہوا مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، شرح نمو کی ابتری اور کم ہوتے ہوئے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر شامل ہیں۔حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ پاکستان کی ترقی میں ایک اہم رکاوٹ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا کردار ہے ملک کو انسداد دہشت گردی کی مہم میں شراکت دار بننے کے باعث بھاری سماجی اور اقتصادی نقصانات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ انسداد دہشت گردی مہم جو امریکہ میں 2001ء میں نائن الیون کے واقعے کے بعد شروع ہوئی پاکستان کے بجٹ پر بھاری بوجھ بن گئی ہے کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بجٹ میں زیادہ رقوم مختص کرنی پڑیں جس کے باعث پورے پاکستان بالخصوص فاٹا اور خیبر پختونخوا کے لئے ترقیاتی وسائل میں کمی کرنی پڑی۔ علاوہ ازیں انسانی مصائب و مشکلات اور لوگوں کی نقل مکانی اور دوبارہ بحالی پر بھی بھاری رقم خرچ ہو رہی ہے۔بہت سے ترقیاتی پروجیکٹس جو پہلے متاثرہ علاقوں میں شروع کیے گئے تھے تاخیر کا شکار ہیں اور اس کے نتیجے ان پر آنے والے لاگت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ انسداد دہشت گردی مہم کے آغاز کے وقت سے ہی ہر طرف ایک بے یقینی کی فضا پیدا ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں ملکی معاشی سرگرمیوں میں سست رفتاری آگئی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے احتراز کر رہے ہیں خدشہ ہے کہ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری پر جس میں کئی برسوں سے اضافہ ہو رہا تھا فاٹا اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں جاری انسداد دہشت گردی مہم پر مخالف اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے علاوہ ملک کو درپیش خطرات میں بھی اضافہ ہو گا جس کے باعث مارکیٹ سے قرضوں کے حصول پر زیادہ اخراجات ہوں گے۔
قیام پاکستان پر قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ ہماری ناقص پالیسیوں ، بدعنوانیوں اور وطن فروشی کی وجہ سے اس شہ رگ پر براہمن سامراج نے جو خونی پنجے گاڑے تھے ان میں روز بروز مضبوطی آتی جا رہی ہے۔ ہمارے دریا خشک ہو رہے ہیں عوام کو ذہنی مریض بنایا جا رہا ہے جس کی واحد وجہ پاکستان کے اساسی نظریات سے رو گردانی ہے۔ کشمیر تو بہرحال آزاد ہو گا یہ الگ بات کہ اس آزادی کی قیمت کتنی چکانی پڑتی ہے 5فروری کا پاکستانیوں کو یہ پیغام ہے کہ اپنے ان عاقبت اندیش حکمرانوں سے باخبر رہیں جو ان کی 65سالہ قربانیوں پر مٹی ڈال کر انہیں دفن کرنے پر تلے ہیں۔
0 comments: