• Novels By Tariq Ismail Sagar
  • Novels List

List Of Novels By Tariq Ismail Sagar. Part.2

Some of the Novels written by Tariq Ismail Sagar











read more →

List of Novels by Tariq Ismail Sagar. Part.1

Tariq Ismail Sagar is one of the most popular Fiction writer and columnist in Pakistan. He served many years in to defend the boundaries of Pakistan. He has written dozen of novels to tell us the real situation going on day by day in Pakistan through his columns and novels.

Some of the most popular books he has written is mentioned below. You can buy these books from the trusted seller we are going to mention.

Use our contact us forum below the page for quick assistance.
 










read more →

Terrorists, Who they are- Column.

بھارتی وزیر داخلہ سوشیل کمار نے کہا ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کے کیمپ موجود ہیں اور بی جے پی اورآر۔ایس۔ایس مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہے۔ انہوں نے مکہ مسجد، سمجھوتہ ایکسپریس اور دیگر اہم دہشت گردی کے واقعات اور دھماکوں کا ذمہ دار ان دونوں متعصب اور مسلم دشمن جماعتوں کو قرار دے کر بھارت کے سیاسی ایوانوں پر زلزلہ طاری کر دیا ہے۔ سوشیل کمار کے اس جرأت مندانہ انکشاف کی تائید بی جے پی کے علاوہ بھارت کی ہر سیاسی پارٹی کے ذمہ دار رہنماؤں نے کی ہے بلکہ کئی اراکین پارلیمنٹ نے تو میڈیا کے سامنے برملا کہا کہ وہ یہ سب کچھ بہت پہلے سے جانتے تھے لیکن اس تلخ سچائی کو زبان پر لانے سے کتراتے تھے کیونکہ بھاجپائی غنڈوں نے بھارتی سیاست کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور وہ بھارت کے سیکولر چہرے پر سیاہی مل رہے ہیں۔
بھارتی وزیر داخلہ سوشیل کمار جس سچ کو اپنی زبان پر لائے ہیں وہ کوئی ڈھکا چھپا سچ نہیں تھا۔ بھارت ہی کی کئی غیر جانبدار اور انسانیت نواز اہم شخصیات اس حوالے سے کئی انکشافات کر چکے ہیں یہ بھی کل کی بات ہے جب بھارتی فوج کے ایک آن ڈیوٹی کرنل کو بمبئے کے پولیس آفیسر نے سمجھوتہ ٹرین دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا اور اس کے خلاف ناقابل تردید ثبوت بھی پیش کیے تو اس بے چارے کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے گو کہ اس کا بہانہ ممبئی پر ہونے والا دہشت گردوں کا حملہ بنا لیکن آنجہانی کی بیوی کی اپنے خاوند پر لکھی کتاب میں یہ سارے حقائق موجود ہیں ایک عرصے تک بھارتی پریس میں اس کا واویلا بھی مچا لیکن پھر حیرت انگیز طور پر یہ کیس ختم کر دیا گیا۔
بھارتی حکومت کے پاس ایسی کئی غیر جانبدار تحقیقاتی رپورٹس موجود ہیں جن میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ آر۔ایس۔ایس اپنے ممبران کو دہشت گردی کی باقاعدہ تربیت دیتی ہے۔ ان کے کیمپ بنے ہوئے ہیں اورانہیں بھارتی فوج کے ایک خصوصی ’’ریڈیکل گروپ‘‘ کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
بھارتی فوج کے گرفتار کرنل نے اس بات کا انکشاف بھی کیا تھا کہ وہ بھارتی فوج کے ڈپوؤں سے اسلحہ اور گولہ بارود چوری کر کے ان دہشت گردوں کو فراہم کرتے ہیں۔ تاکہ وہ مسلمانوں کے خون سے جی بھر کے ہولی کھیل سکیں۔ گزشتہ دس بارہ سال میں بھارت کے سوشل میڈیا پر ایسے درجنوں افراد کے بیانات اور انکشافات آن ریکارڈ موجود ہیں جنہوں نے بھارتی مسلمانوں کا قتل عام کیا، دھماکے کئے اور اس کا الزام بھارتی حکومت نے پاکستان کے سر پر دھر دیا۔
یہ ہے بھارتی سامراج کا وہ اصلی چہرہ جس کو وہ سیکولر ازم کے پردے میں چھپانے کی بار بار کوشش کرتے ہیں لیکن ان ہی کے کرتوت ان کی اصلیت کو بہر حال بے نقاب کر دیتے ہیں۔ بھارت میں موجود بائیس سے زیادہ علیحدگی پسند تحریکوں کو پاکستان اسلحہ فراہم نہیں کرتا نہ ہی انہیں پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے تربیت دی بلکہ یہ سب وہ چھوٹی ذات کے ہندو (دلت) ہیں جو براہمن سامراج کے خونی شکنجے سے بچ نکلنے کے لیے گزشتہ ساٹھ سال سے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اس مسئلے پر بھارت میں درجنوں کتابیں، سینکڑوں ہیومن رائٹس رپورٹس اور اب تو بالی وڈ کی فلمیں بھی بننے لگی ہیں۔ حال ہی میں نکسل باڑی پر بننے والی فلم نے تو بھارت معاشرے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور بھارت کے کونے کونے سے اس پر احتجاج بھی ہو رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر سے ناگالینڈ تک براہمن سامراج کیخلاف موجود نفرت جو اب مسلح جدوجہد کی شکل تیزی سے اختیار کرتی جا رہی ہے بھارتی سیکولرازم کے منہ پر طمانچہ ہے آئے روز خواتین کے خلاف ہونے والے مظالم خصوصاً ان کے ساتھ ہونے والی جنسی درندگی پر سارا ہندوستان سراپا احتجاج ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اس کے باوجود بھارت پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرتا ہے۔ پاکستان کو دہشت گرد ملک کہتا ہے اور دن رات یہ راگ الاپ رہا ہے۔
شرم آتی ہے اس عالمی بے حسی پر جس کا خصوصاً پاکستان شکار ہے صرف مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی فوج کے مظالم اور درندگی کے واقعات جن کی تفصیلات عالمی ذرائع ابلاغ سے سامنے آتی ہیں جن کے زندہ ثبوت سری نگر کے گلی محلوں اور قبرستانوں میں اس بربریت کی دہائی دے رہے ہیں۔ عالمی ضمیر ان کے متعلق اس لیے فالج کی کیفیت میں مبتلا ہے کہ یہ مسلمان ہیں اس کے علاوہ اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ صرف مسلمان ہونے کے جرم میںآج مقبوضہ کشمیر ، برما، مالی، افغانستان، عراق اور دنیا کے دیگر حصوں میں مسلمانوں کو زندہ درگور کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کا منطقی نتیجہ سوائے تباہی و بربادی، جوابی دہشت گردی اور نفرت کے اور کیا ہو سکتا ہے۔
حال ہی میں کنٹرول لائن پر ہونے والے بھارتی جارحیت بھارتی آرمی چیف کی بڑھکیں اور پاکستان پر جھوٹے الزامات سب اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ بنگلہ دیش ، نیپال، بھوٹان، سری لنکا، مالدیپ، پاکستان کون سا بھارت کا ایسا ہمسایہ ملک ہے جسے ماضی یا حال میں بھارتی دہشت گردی اور سامراجی غنڈہ گردی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ افسوس عالمی ضمیر سوتا رہا صرف بیانات کی حد تک کہنے سننے کو ضرور ملتا رہا۔ عملاً کسی نے کچھ نہیں کیا۔
جن لوگوں نے پاکستان میں اس موضوع پر کچھ کہنے سننے کی ہمت کی انہیں زرخرید میڈیائی غنڈوں نے رجعت پسند، ایجنسیوں کے بندے، غیرت بریگیڈ جیسے القابات سے نوازا۔ شرم آنی چاہیے انہیں جو دن رات امن کی آشا کا راگ الاپتے ہیں۔ کیا ان میں جرات ہے کہ بھارتی حکومت سے پوچھیں ان کے وزیر داخلہ کے الزامات کے بعد اخلاقی طور پر کون سی حجت باقی رہ گئی ہے کہ انہیں دہشت گرد نہ کہا جائے؟ لیکن یہ لوگ ایسا نہیں کریں گے۔ کیونکہ انڈین چینلز، فلمیں بند ہونے سے، سیاحتی تبادلے بند ہونے سے ان کے جان پر بن آتی ہے۔ صرف چند دنوں کی عیاشی اور مفت شراب کی فراہمی کے عوض یہ بے ضمیر ایک دہشت گرد حکومت کو سیکولر اور عالمی دہشت گردی کا شکار پاکستانی حکومت، فوج اور عوام کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔
بھارتی وزیر داخلہ کے اس بیان کے بعد کیا امریکہ، برطانیہ یا دنیا کے کسی اور مہذب ملک کے پاس کوئی اخلاقی جواز باقی رہ جاتا ہے کہ وہ بھارت کو دہشت گرد ملک قرار نہ دے؟ پاکستان کے مختلف حصوں میں ہونے والی دہشت گردی میں ’’را‘‘ کی شمولیت کے ثبوت پاکستان حکومت عالمی سطح پر پیش کر چکی ہے اور کر بھی سکتی ہے لیکن دنیا کا ضمیر سو رہا ہے۔ پاکستانیوں کو صرف مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔
ہماری بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ ہمارے بے ضمیر حکمران اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں رکھتے کہ دن رات پاکستان آرمی کو دہشت گرد آرمی کہنے والے غیر ملکیوں اور ان کے پروردہ پاکستانی ایجنٹوں کی زبان ہی بند کر سکیں۔ تادم تحریر سوشیل کمار کے اس بیان پر پاکستان وزارت خارجہ کا کوئی تبصرہ نہ آنا پاکستانیوں کو یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ ان پر دراصل کون حکومت کر رہا ہے؟
read more →

Coward Enemy

اللہ ہی جانے ہمیں کیسے بزدل دشمن سے پالا پڑا ہے جو دوستی تو کیا دشمنی بھی ڈھنگ سے نبھانے کا شعور نہیں رکھتا۔ دنیا کے ہر ملک، معاشرے، مذہب اور محکمے میں کوئی نہ کوئی ضابطہ اخلاق ضرور ہوتا ہے شنید ہے کہ متحارب کرکٹ ٹیموں کے باؤلرز کے درمیان ایک خاموش معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو باؤنسرز مار کر زخمی نہیں کریں گے۔ اس طرح دنیا کی جتنی پیشہ ور تنظمیں ہیں ان میں ایک دوسرے کے لیے بہر حال احترام کا جذبہ پایا جاتا ہے لیکن ہمارا ہمسایہ ملک جو خود کو سیکولر اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے پر مصر ہے بنیادی انسانی حقوق کا احترام بھی نہیں کرتا۔ جس کی تازہ مثال پاکستانی فوج کے سپاہی رفیق احمد کی شہادت ہے جو کشمیر کے کھوئی رٹہ سیکٹر میں راستہ بھول کر بھارتی علاقے میں داخل ہو گیا جہاں اس نے خود کو سرنڈر کیا اپنی شناخت بتائی اور وہاں موجود سیکولر ازم کے ان پرچارکوں کو بتایا کہ وہ راستہ بھول کر یہاں آگیا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں لگی ہوئی۔ اگر حالت جنگ میں کوئی سولجر اپنی یونیفارم میں گرفتار ہو جائے تو اس کو جنیوا رولز کے تحت گرفتارکر کے جنگ کے خاتمے پر دونوں متحارب افواج ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔ یہ سانحہ تو حالت امن میں پیش آیا تھا اس کے باوجود بھارتی بزدل فوجیوں نے اس نہتے اور سرنڈر جوان کو شہید کر دیا۔ یہ تو تصور کیا ہی جا سکتا ہے کہ شہید کرنے سے پہلے ان موزیوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہو گا۔ خدا کا شکر ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت اور سفارتی دباؤ پر بھارتی سورماؤں نے اس کی لاش واپس کر دی ورنہ تو ان ظالموں سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔
بھارتی فوج کی اس مجرمانہ حرکت کا اصولی طور پر تو ساری دنیا کو نوٹس لینا چاہیے لیکن مفادات کی اس دنیا میں ایسا نہیں ہوتا یہاں ہر کسی کے اپنے مفادات ہیں جن کے مطابق ہی وہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا نے بھی بے حسی کی انتہا کر دی جبکہ بھارتی چینلز مسلسل پاکستانی ’’گھس پیٹھ‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں۔
گزشتہ تین ماہ سے کنٹرول لائن پر بھارت جو حرکتیں کر رہا ہے اور جس انداز کی جارحیت اس کی طرف سے ہو رہی ہے اس کا پس منظرتو اچھی طرح سمجھ آجاتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے اپنی فوج افغانستان سے نکالنے کے اعلان نے بھارت پر بوکھلاہٹ طاری کر دی ہے کیونکہ افغانستان میں اسے امریکہ کی تمام کوششوں اور بھارت کے چانکیائی ہتھکنڈوں کے بعد بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور بھارتیوں کو اس علاقے میں جس تھانیداری کی توقع تھی وہ بھی ملنے سے رہی اب وہ پاکستان پر جس کی فوج دہشت گردی کے خلاف عملاً حالت جنگ میں ہے مزید دباؤ بڑھا کر کچھ مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جن میں سب سے بڑا مقصد تو کچھ تزویراتی نوعیت کی پوزیشنز کا حصول ہے جہاں بیٹھ کر بھارتی فوج خود کو طرم خان ثابت کرنے کی کوشش کرے گی۔ دوسرا خوف جس نے بھارتی عسکری قیادت کو ڈسا ہوا ہے وہ کشمیری نوجوانوں کی جدوجہد آزادی کے دوبارہ مسلح تحریک آزادی میں بدلنے کا خوف ہے۔ بھارتی حکومت نے اس خطے میں ہونے والی تبدیلیوں میں مقبوضہ کشمیر میں جاری مسلح جہاد پر قابو پا لیا تھا لیکن عام پاکستانی بھی اس تلخ زمینی سچائی سے آگاہ نہیں کہ منافق کشمیری قیادت کا اصلی چہرہ کشمیریوں نے پہچان لیا تھا اور وہ اب سید علی گیلانی اور ان جیسے چند لیڈروں کے علاوہ اورکسی کی بھی بات پر کان بھی دھرنے کو تیار نہیں تھے۔
افضل گورو کی تہاڑ جیل میں بزدلانہ پھانسی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور کشمیری نوجوان اب یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ انہیں یہ جنگ خود ہی لڑنی ہے تب تک کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا جب تک کہ وہ فتح مند ہونے کے قریب نہ پہنچ جائیں۔ کیونکہ شکست کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ البتہ فتح کے بہت سے رشتہ دار پیدا ہو جاتے ہیں۔
بھارتی یہ سمجھتے تھے کہ امریکنوں کی مدد سے انہوں نے پاکستان پر جو ناجائز دباؤ گزشتہ آٹھ دس سال میں ڈالے ہیں اور جیسے بدترین حالات میں پاکستانی حکومت نے انہیں کنٹرول لائن پر بھی خاردار تاروں کا جال بچھا نے کی اجازت دے دی ۔ اس سے آزادی کشمیر کا بیس کیمپ یعنی آزاد جموں کشمیر عضو معطل بن چکا ہے اور یہ عقل کے اندھے سمجھتے ہیں کہ اگر آزاد کشمیر سے مداخلت بند ہو جائے تو ’’مجاہدین ‘‘ سے ان کی جان چھٹ جائے گی جبکہ ایسا نہیں ہوا۔ ایک دن کے لیے بھی مقبوضہ کشمیر میں مسلح جہاد ختم نہیں ہوا البتہ اس حوالے سے خبروں پر ضرور سنسر شپ رہی ہے۔ اب کشمیری نوجوان پھر متحرک ہو رہے ہیں افضل گورو اور جس نے بندوق رکھ کر احتجاج کا راستہ اپنایا تھا اس کو بھی بھارتیوں نے قتل کر دیا جس کے بعد سے کشمیری نوجوانوں کے دلوں میں آگ لگی ہے اور وہ اب بندوق اٹھانے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔
اس صورتحال نے بھارتیوں پر بوکھلاہٹ طاری کر دی ہے اور وہ پاکستان پر دباؤ بڑھا کریا بھارتی سپریم کمانڈروں کے ماضی کے بیانات کے حوالے سے ’’محدود جنگ‘‘ کا آپشن اپنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ جب کا مطلب اس خطے میں ایک مستقل تباہی اور برباد ی کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا۔
پاکستان کی سیکولر قیادت اور سوشل میڈیا کو بھی جان لینا چاہیے کہ ہم بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیں یا نہ دیں اس کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بھارتی حکومت گزشتہ 65سال سے اس زعم کا شکار ہے۔ کہ وہ ایک دن (خاکم بدہن) پاکستان کو دوبارہ ہندوستان میں ضم کر دیں گے۔ بدقسمتی سے ان کے پاس 1971ء کا تجربہ موجود ہے اور وہ عقل کے اندھے 2013ء کو بھی 1971ء ہی سمجھ رہے ہیں اس کا خیال ہے کہ پاکستان میں اپنا حمایتی میڈیا، مادرپدر آزاد این جی اوز اور زر خرید سیکولر ذہینت کی مدد سے بھارت 1971ء والے حالات دوبارہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ جو ظاہر ہے کسی ذہنی مفلوج کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ اس مرحلے پر اگر ہم نے خصوصاً کنٹرول لائن پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی نہ اپنائی تو سپاہی رفیق احمد جیسے اور سانحہ بھی ہمارے منتظر ہیں
read more →

Indian agression

ان حالات میں کہ جب پاکستان میں بڑے زور شور سے امن کی آشا کا بھونپو بجایا جا رہا ہے۔ بھارتی صحافیوں کا وفد لاہور آیا ہے۔ چند روز پہلے ماضی کے ایکٹر شتروگن سہنا جن کی صاحبزادی نے آج کل بھارتی فلم انڈسٹری میں جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں شتروگن سہنا کو جن کے والد ہونے پر بڑا فخر بھی ہے وہ آج کل پاکستانی سیاستدانوں سے ملاقاتیں فرما رہے ہیں۔ امتیاز راشد صاحب میاں نواز شریف کے پاک بھارت معاملات پر ’’کار خاص‘‘ بن کر ان سے تقاریر کروا رہے ہیں جس میں میاں صاحب بھارت کے لیے محبت کی شیرینی تقسیم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک بڑا میڈیا گروپ عرصے سے اس مشن پر ڈٹا ہے لیکن اس سب کا حاصل کیا ہے؟
چند روز پہلے پاکستانی ٹیم جب بھارت میچ کھیلنے گئی تو آپ نے بھارتی شائقین کے رویے سے اندازہ کر لیا ہو گا کہ وہ پاکستان سے نفرت کے چکر میں ’’سپورٹس مین سپرٹ‘‘ بھی ختم کر چکے ہیں اور ہر صورت بھارت کو غالب اور پاکستان کو مغلوب دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان کی طرف سے بے پناہ محبت کے مظاہرے کے جواب میں بھارتی ٹیم نے کسی نیوٹرل جگہ پر بھی پاکستان سے میچ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے ہمارے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بے پناہ اظہار عشق اور درخواستوں کے بعد وہ غالباً چھ ماہ بعد لندن میں ایک میچ کھیلنے پر تیار ہوئے ہیں لیکن ہم نا امید نہیں اور ابھی تک ڈھٹائی سے اپنے کام میں لگے ہیں۔
بھارتی فوج کی طرف سے پاکستانی پوسٹ پر بزدلانہ حملہ اور نائیک اسلم کی شہادت اس کی تازہ مثال ہے۔ جب پاکستان نے اس پر احتجاج کیا اور بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے احتجاجی لیٹر انہیں تھمایا تو اگلے ہی روز بھارت کی طرف سے پاکستانی فوج کے مقبوضہ کشمیر میں کسی پوسٹ پر جعلی حملے کا واویلا شروع ہو گیا جس میں عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی فوج نے حملہ کر کے دو بھارتیوں کو مار ڈالا اور ان کے سر بھی کاٹ کر ساتھ لے گئے ہیں۔ دلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کر کے احتجاجی مراسلہ دیا گیا ہے۔ اس طرح بھارت نے فوراً اپنی دانست میں کھیل برابر کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے جبکہ پاکستان نے ایسے کسی بھی حملے سے انکار کرتے ہوئے اسے پاکستان کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد الزام قرار دیا ہے لیکن بھارتی میڈیا اور حکومت بڑی ہٹ دھرمی سے اس جھوٹ کے ڈھول کو پیٹ پیٹ کر آسمان سر پر اٹھا رہے ہیں یہ ڈھٹائی اور جھوٹ کی انتہاہے کہ بھارتی حکومت ایک جعلی واقعہ کھڑا کر کے اس پر باقاعدہ پاکستان کے خلاف مہم چلا رہی ہے جبکہ پاکستان آئی ایس پی آر نے ایسے کسی بھی واقعے سے انکار کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھارت نے ان حالات میں جب حکومت پاکستان سنجیدگی سے بھارت کو ’’موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ کا درجہ دینے پر غور کر رہی ہے۔ ایسی حرکت کیوں کی؟ جس کا صاف اور سیدھا جواب تو یہ ہے کہ بھارت میں موجود ’’ہاکس‘‘ کبھی پاکستان سے تعلقات نارمل ہونے نہیں دیں گے۔ ان میں سٹیٹ اور نان سٹیٹ دونوں ایکٹرز شامل ہیں۔ پاکستان نے جنرل مشرف کے دور سے بھارت کے تئیں یہ پالیسی اپنا رکھی ہے کہ بھارت کی کسی بھی اشتعال انگیزی کا جواب غصے سے نہیں دینا اور بھارت کی طرف سے پاکستان پر شدت پسندی کے الزام کو غلط ثابت کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد اشتعال انگیز کارروائیوں کے باوجود پاکستان نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے عالمی سطح پر بھارتی پراپیگنڈہ کی نفی ہونا شروع ہو گئی ہے۔
بھارت کی طرف سے پاکستانی پوسٹ پر حملہ اور ایک جوان کی شہادت کے بعد امریکہ اور چین دونوں نے اس کا نوٹس لیا امریکہ نے تو حسب معمول منافقانہ انداز میں مدعی اور ملزم کو ایک ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور یہ کہا کہ آئندہ ایسے واقعات نہیں ہونے چاہئیں جبکہ چینی وزارت خارجہ نے بھارت کی طرف سے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے خطے کی امن میں گڑ بڑ پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا۔ جس کے بعد بھارت نے پاکستان پر جھوٹی جوابی الزام تراشی شروع کر دی ہے۔ پاکستان وزارت خارجہ نے بھی اس جھوٹے الزام کی شدت سے تردید کی ہے لیکن تادم تحریر بھارتی الیکٹرونک میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔
پاکستان کی طرف سے بھارت سے تعلقات کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں ایک طرف لیکن بھارتی حکومت ایک ایسی حرکت کرتی ہے کہ سب کچھ بگڑ کر رہ جاتا ہے۔ جو بات ہم سمجھ نہیں پاتے وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ بھارت پاکستان آرمی کو دنیا کے سامنے ایک دہشت گرد آرمی بنا کر پیش کر رہا ہے۔ جس کے لیے وہ عجیب و غریب قسم کے ڈرامے رچاتا ہے۔ جب دنیا کو یہ بتایا جائے کہ کسی ملک کی فوج نے اپنے مخالف ملک کے فوجیوں کے سر کاٹ لیے یا مارنے سے پہلے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو اس فوج سے متعلق کیا رائے قائم ہو گی؟ بنگلہ دیش میں 1971ء کے گڑے مردے اکھاڑنے کی مہم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جس میں سارا ملبہ پاکستانی فوج پر گرانے کی سازش کی جا رہی ہے اور ایسی ایسی ظلم و ستم کی جھوٹی کہانیاں منظر عام پر لائی جائیں گی کہ خدا کی پناہ۔ بدقسمتی کی انتہا تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں لبرل فاشسٹوں کا ایک ایسا گروہ پہلے سے موجود ہے جو دشمن کو مظلوم اور اپنوں کو ظالم ثابت کرنے کے لیے تمام صحافتی اور اخلاقی اقدار کو روندنے پر تلا ہے۔ ان حالات میں اگر ہم نے آنکھیں بند کر کے تصویر کا صرف ایک ہی رخ دیکھنے کی ضد جاری رکھی تو ہم اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودیں گے۔
read more →

Senselessness

ایک طرف سیاست کی گرم بازاری ہے کہ جس نے ملک کی پہلے ہی سے تباہ شدہ معیشت کو ایک دھکا لگا کر مکمل تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اندرونی خلفشار نے عوام کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ خصوصاً اسلام آباد کے شہری قریباً مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ آمدورفت میں رکاوٹیں، کاروبار تباہی کے دہانے پر، دہشت گردی کا خوف جو قریباً ہر بالغ پاکستانی کے دل و دماغ میں سرایت کر چکا ہے۔ کرپشن کے نت نئے سیکنڈل جس کی انتہا یہ کہ ملک کی سب سے بڑی ایگزیکٹو اتھارٹی یعنی پاکستان کے وزیراعظم کی عدالت عظمیٰ کی طرف سے کرپشن سیکنڈل میں گرفتاری کا حکم، پراسرار طور پر اچانک آٹے کی بڑھتی قیمتیں، ملک میں لاکھوں من زائد گندم کے باوجود آٹے کی کمیابی، مہنگائی کا نیا طوفان، دہشت گردی، گیس، بجلی اور اب پانی بھی کی نایابی، کس کس کا رونا رویا جائے۔ اس تباہ کن صورتحال نے (خاکم برہن) پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک کے مستقبل سے مایوس کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے میڈیا پر قائداعظم کے فیصلوں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گڑے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں اور نوجوان نسل کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ خدانخواستہ پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہی غلط تھا۔
بدقسمتی کی انتہا ملاحظہ فرمائیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا وزیراعلیٰ دوبئی میں داد عیش دے رہا ہے جبکہ اس کے شہر میں جنازے رکھ کر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ مرکز میں برسر اقتدار پارٹی کا یہ جیالا کتوں اور موٹر سائیکلوں کا شوقین اور اپنی وزارت اعلیٰ کا آدھے سے زیادہ وقت اپنے صوبے سے باہر گزارنے، عجیب و غریب طرح کی یاوہ گوئی کرکے میڈیا اور حکومت کا تمسخر اڑانے میں یدطولیٰ رکھتا ہے۔ جسے وزیراعظم نے بار بار دبئی سے واپس آکر صورتحال کا سامنا کرنے کی تلقین کی جس کو اس نے پرکاہ جتنی اہمیت نہ دی بالآخر بادل نخواستہ اسے برطرف کرنا پڑا۔ وزیراعظم اسلام آباد سے غائب ہیں۔ اپنے صاحبزادے کی شادی کے جشن میں مگن وزیراعظم کو قطعاً اس سنگین صورتحال کا احساس نہیں جہاں تک صدر محترم کا تعلق ہے۔ ان پر کوئی تبصرہ کرنا صرف وقت اور الفاظ کا ضیاع ہے۔ ان کا تو ایک ہی ایجنڈا ہے جسے پنجابی میں کہتے ہیں۔ ’’ضد میری مجبوری‘‘
ان سنگین حالات میں اچانک بھارت کو کھجلی ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ طویل عرصے سے بھارتی حکومت پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کے لیے پاکستان میں تخریب کاری کروا رہی ہے۔ اب اس نے مقبوضہ کشمیر کے محاذ کو گرم کرنے کے گھناؤنے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔ پاکستان آرمی کے خلاف بزدلانہ حملوں میں ہمارے تین جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ کئی زخمی ہیں اور بھارت کا آرمی چیف یہ دھمکیاں دے رہا ہے کہ ہم پاکستان کو مزا چکھائیں گے۔ ایئر فورس چیف اس سے پہلے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کر چکا ہے۔ پاکستانی احتجاج کو پرکاہ جتنی اہمیت بھی نہیں دی جا رہی۔ حیرت ہے کہ نارمل حالات میں بھی بھارتی آرمی چیف نے نیشنل میڈیا پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان پر گھٹیا الزامات لگائے اور دھمکیاں دیں جس کا عالمی برادری نے قطعاً نوٹس نہیں لیا۔ خصوصاً اس مسئلے پر امریکہ کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے اور بظاہر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اس جارحیت کو مکمل امریکن پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ امریکنوں کے کسی بھی ناجائز مطالبے کے سامنے جنرل کیانی نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے اور امریکنوں کی جان عذاب میں آئی ہوئی ہے وہ اپنی دانست میں افغانستان سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار نہیں انہوں نے اربوں ڈالر اور سینکڑوں جانوں کے نقصان سے یہ تزویراتی برتری حاصل کی ہے اور چین کو قریب سے مانیٹر کر رہے ہیں۔ اب وہ بھارت کو یہاں کا تھانیدار اور اپنے مفادات کا نگران بنانے پر تلے ہیں۔
پاکستان آرمی پر ہونے والی جارحیت کا تو انشاء اللہ بھارتیوں کو منہ توڑ جواب مل رہا ہو گا اور الحمد للہ 2013ء میں پاکستان آرمی اس قابل ہو چکی ہے کہ کسی بھی جارح کے دانت توڑ کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دے لیکن بزدل دشمن اور بے غیرت آستین کے سانپوں نے جو محاذ پاکستان کے خلاف کھول رکھا ہے۔ اس پر دشمن کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے اور گزشتہ دنوں وزیرستان میں چھپ کر کیا جانے والا بزدلانہ دھماکہ جس کے نتیجے میں کئی پاکستانی شہید ہوئے ایسی گھناؤنی کارروائی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
شاید پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری طالبان کے بجائے ایک ازبک دہشت گرد گروپ نے قبول کی ہے۔ جس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں غیر ملکی مداخلت کتنی بڑھ چکی ہے۔ اس سے پہلے بھی پشاور ایئر پورٹ پر حملے میں جو دہشت گرد مارے گئے تھے۔ جن کے جسم پر ٹیٹو بنے ہوئے تھے۔ ان کا تعلق بھی دو ممالک ازبکستان اور داغستان سے بتایا گیا تھا۔
یہ غیر ملکی دہشت گرد کس نے پاکستان میں داخل کیے، انہیں اسلحہ اور تربیت کہاں سے ملتی ہے اور ان کی خفیہ پشت پناہی کون کر رہا ہے؟ پاکستان کے ہر باشعور شہری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس کا بخوبی علم ہے۔ دشمن کی شناخت ہونا بھی کسی قوم پر اللہ کا خصوصی احسان ہوتا ہے لیکن کیا صرف دشمن کی شناخت کافی ہے؟ کیا بطور مسلمان پاکستانی ہم پر کوئی فرض عائد نہیں ہوتا؟ ان حالات میں جب پاکستان آرمی کو اندر اور باہر دونوں طرف سے شدید جارحیت کا سامنا ہے ہم ان کے لیے نئے محاذ کھول رہے ہیں۔ اپنی سیاسی انانیت کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے میڈیا کو بھی اپنا ہتھیار بنا رہے ہیں۔ کیا یہ افسوس اور دکھ کا مقام نہیں کہ گزشتہ چار پانچ روز سے ہمارے الیکٹرونک میڈیا نے صرف طاہر القادری فوبیا خود پر طاری کیا ہوا ہے جبکہ بھارتی میڈیا پاکستان آرمی کے خلاف مسلسل زہر اگل رہا ہے اور اپنے عوام میں جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے۔ بھارتی وزراء، وزیراعظم، آرمی چیف پاکستان کے خلاف غلط الزامات کی تکرار کررہے ہیں جبکہ ہمارے وزیر داخلہ بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت پھر عدلیہ سے الجھ رہی ہے۔ افسوس صدر یا وزیراعظم کی طرف سے تادم تحریر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے حوالے سے ایک خبر بھی منظر عام پر نہیں آرہی۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجتماع نے دس نکاتی، عمران خان نے سات نکاتی، علامہ طاہر القادری نے چار نکاتی ایجنڈا جاری کر دیا لیکن کسی نے بھی بھارتی جارحیت پر منہ نہیں کھولا۔ اس بے حسی کو سوائے ملی بے غیرتی کے اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟
read more →

The Seller

’’
دوستی گروپ‘‘ کے نام سے سی سی پی او کوئٹہ نے بالآخر بچوں کا وہ گروپ پکڑ لیا جن کو بلوچ سرداروں کے گماشتے جو بلوچستان کو آزاد کروانے چلے ہیں ، اپنے گھناؤنے ترین مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ جی ہاں! ان بچوں کی زبانی علم میں آیا کہ ان کے غربت ان کے لیے جہنم کا پھندا بن گئی۔ظالم درندوں نے انہیں کھوجا چند سو روپے کا لالچ دیا اپنے ساتھ لگا لیا۔ سب سے پہلے انہیں قابو کرنے کے لئے نشے کی لت ڈالی گئی پھر ان کا جنسی استحصال ہوا جس کے بعد ان سے دھماکے کروائے گئے۔ ان بچوں نے کئی ایسے خوفناک اور تباہ کن دھماکوں کا اعتراف کیا جو ان سے بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے کروائے تھے جن میں اب تک سینکڑوں بے گناہ پاکستانی مارے جا چکے ہیں۔ لعنت ہے ان علیحدگی پسندوں اور ان کے ہمدردوں پر جو ان بچوں کی معصومیت کا ایسا بھیانک استعمال کر رہے تھے۔ ان کے ذریعے اسلحہ سمگل کرواتے تھے۔ ان کے ذریعے ویگنوں اور شاہراہوں پر بم نصب کرواتے تھے۔
ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ بدترین دہشت گردی کا منصوبہ بنانے والے گمراہ بلوچ نوجوان نہیں ہو سکتے اگر وہ واقعی بلوچ والدین کی اولاد ہیں تو ایسی بے غیرتی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جو ہمیں ٹی وی سکرینوں پر دکھائی دے رہی ہے۔ یہ ’’کارنامہ‘‘ ان کے ’’مالکان‘‘ یعنی غیر ملکی ہینڈلرز کا ہے جنہوں نے گمراہ نوجوانوں کو یہ راستہ دکھایا۔ یہ گھناؤنی سکیم سمجھائی اور اس پر عمل کروایا۔ دنیا کی تین ایسی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں جن سے اس نوعیت کے گھٹیا آپریشن کی توقع کی جا سکتی ہے جن میں ’’موساد‘‘۔۔۔ ’’را‘‘ اور ’’سی آئی اے‘‘ شامل ہے۔ تینوں اداروں کی ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اس سے پہلے بھی اس نوعیت کے کارنامے انجام دے چکے ہیں۔
ان بچوں کی گرفتاری کے بعد اب یہ دیکھنا ہے کہ علیحدگی پسند گروپوں کے گاڈ فادر جو دوبئی اور لندن کے عشرت کدوں میں گلچھڑے اڑا رہے ہیں اپنی صفائی میں کیا کہتے ہیں؟ اور ہمارے وہ میڈیا کے بھائی بند جن کی اکثریت صرف بغض معاویہ یا پھر ٹوہر پٹے کے چکر میں دن رات ایجنسیوں کے خلاف صف ماتم بچھائے رکھتی ہے اس کی طرف سے ’’ایجنسیوں کے اس ایکشن‘‘ پر کیا تبصرہ ہوتا ہے۔ تادم تحریر تو انہیں سانپ سونگھ گیا ہے کیونکہ سوائے معمول کی خبر کے اور کوئی تبصرہ دیکھنے کو نہیں ملا۔
اپنے گھناؤنے عزائم کی تکمیل کے لیے یہ لوگ کہاں تک جا سکتے ہیں؟ کس حد تک گر سکتے ہیں اب قوم کو اس کا اندازہ ہو جانا چاہیے اور یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ہم بُری طرح سازشیوں کے نرغے میں پھنسے ہیں۔ ہر نیا دن ایک بری خبر کے ساتھ طلوع ہوتا ہے اور ہم بے بسی سے اپنے لٹنے کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔
ان بچوں کے والدین کو ن ہیں؟ یہ بچے ان ظالموں کے ہاتھوں تک کیسے پہنچے اور کتنے عرصے سے یہ گھناؤنا دھندہ ’’انسانی حقوق اور آزادی‘‘ کی آڑ میں کھیلا جا رہا ہے۔ یہ معاملات بڑے غور طلب ہیں۔ میری تو ذمہ دار لوگوں سے درخواست ہے کہ اس کی تمام تفصیلات قوم کے سامنے لائی جائیں۔ خصوصاً این جی اوز مارکہ میڈیا جو دن رات باغیوں کی مظلومیت کے پھریرے اڑاتا رہتا ہے کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کس سازش کا شکار ہو رہے ہیں اور اپنے ’’ذرائع اطلاعات‘‘ کی تصدیق کر لینا چاہیے۔ آخر یہ ملکی سلامتی اور معصوم زندگیوں کا معاملہ ہے نجانے یہ انسانی درندے کب سے بچوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ یہ خبریں تو عرصے سے چل رہی تھیں کہ خودکش حملوں کے لیے جو بچے استعمال کئے جاتے ہیں ان کی باقاعدہ برین واشنگ ہوتی ہے انہیں مخصوص قسم کی نشہ آور ادویات دی جاتی ہیں اور ذہنی طور پر اس قابل بھی نہیں رہنے دیا جاتا کہ وہ غلط اور صحیح میں فرق کر سکیں۔ ان کے معصوم ذھنوں میں یہ بات راسخ کر دی جاتی ہے کہ وہ جو کچھ کرنے جا رہے ہیں وہی دراصل مقصد حیات ہے۔ بعینہ بلوچستان میں گرفتار ہونے والے بچوں کا معاملہ ہے ان کو بھی یہی کچھ بتایا اور سکھایا جاتا ہے۔ ان بچوں کے بیانات جو سنائے گئے ہیں ان میں ایسے ایسے حیرت انگیز انکشافات ہوئے کہ انسانی عقل ان شیطانوں کے کرتوت پر دنگ رہ جاتی ہے جو بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگا کر دراصل انسانیت کش پروگرام پر عمل پیرا ہیں اور یہ یقیناًکوئی غیر ملکی ایجنڈہ ہے۔ بلوچ کبھی بے غیرت نہیں ہو سکتا کبھی بے عزت نہیں ہو سکتا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ بلوچ کا واحد مسئلہ اس کی عزت اور غیرت کا تحفظ ہوتا ہے۔ مجھے تو ان این جی اوز پر بھی حیرانگی ہو رہی ہے جو بچوں کے حقوق کے نام پر ساری دنیا سے کروڑوں روپے کے فنڈز ہڑپ کر جاتے ہیں یا اپنے اتللوں تللوں میں لٹا دیتے ہیں کہ آخر انہیں ہوش کیوں نہیں آیا۔ اصولی طور پر تو ان ٹی وی اینکرز خواتین و حضرات اور ہیومن رائٹس ایکسپرٹس کو اس طرح کیمپ لگا کر احتجاج پر بیٹھنا چاہیے تھا جیسے کیمپ وہ (اپنی مرضی کے مطابق ہونے والے انسانی مظالم) پر لگاتے ہیں لیکن ظاہر ہے یہ غریب بے کس اور بے سہارا بچے جن کے والدین شاید انہیں دو وقت کی روٹی بھی ڈھنگ سے نہیں کھلا سکتے تھے تب ہی تو وہ ان درندوں کے آلہ کار بنے ہیں۔ ان بچوں کے لیے شاید ہمارے معزز اینکرز خواتین و حضرات اور این جی اوز بیگمات کے پاس وقت نہیں ہوگا۔ ان کی دلچسپی ان موضوعات میں نہیں جہاں پاکستان اور اس میں بسنے والے غریب اور محتاج پاکستانیوں کا استحصال ہو رہا ہے بلکہ وہ ان موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں جن سے پاکستان کو عالمی سطح پر رسوا کرکے اپنے ’’ڈونرز‘‘ کے سامنے اپنے نمبر بنائے جا سکیں۔ میں تو ان گمنام ہیروز کے ’’پروفیشنل ازم‘‘ کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا کر ان بچوں کا سراغ لگایا اور انہیں اپنی حفاظتی تحویل میں لیا اگر خدانخواستہ یہ گروپ قابو نہ آتا تو نجانے اب تک کتنے اور سانحے دیکھنے کو ملتے کیونکہ انسانی نیچر کے مطابق ان معصوم بچوں کی طرف کسی کا دھیان جا ہی نہیں سکتا کہ یہ اتنے گھناؤنے کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ اس مرحلے پر ایک اور اہم بات جس کا تذکرہ بعض طبائع نازک پر ضرور گراں گزرے گا کہ ہم لوگ اپنے ذاتی تعصبات میں اندھے ہو کر بسا اوقات ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو فوری طور پر بہت نقصان دہ ہوتی ہیں لیکن بعد میں غلط ثابت ہو جاتی ہیں ان بچوں نے جن دھماکوں کا اعتراف کیا ہے ان میں سے قریباً ہر دوسرے دھماکے کی ذمہ داری ہمارے وزیر داخلہ اور بڑے بڑے جفادری لیڈر، دانشور ایک مخصوص مسلک کے حامل گروپ پر ڈال کر ملک میں فرقہ وارانہ تعصبات کی آگ بھڑکانے کے مشن پر گامزن ہیں جبکہ یہ دھماکے بلوچستان کے علیحدگی پسند دہشت گردوں نے ان معصوم بچوں سے کروائے تھے۔ اگر ہم کچھ بولنے سے پہلے کچھ لمحے کے لیے سوچ لیا کریں تو کئی مسائل حل ہو جائیں گے۔ پاکستان پر عالمی دہشت گرد حملہ آور ہوئے ہیں۔ ملک کا ہر گلی کوچہ ان کا ٹارگٹ ہے جہاں انہیں ’’سافٹ ٹارگٹ‘‘ ملتا ہے وہاں زیادہ متحرک ہوتے ہیں جیسے کراچی، کوئٹہ اور فاٹا اور جہاں ان کے لیے رکاوٹیں زیادہ ہوں وہاں ان کی تخریب کاری کی رفتار کم ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ حکومت نے جاتے جاتے ’’متنازعہ‘‘ ہی سہی دہشت گردی ایکٹ پاس کر دیا ہے۔
حیرت ہوتی ہے عالمی ضمیر پر کہ وہ سب کچھ دیکھنے جاننے کے باوجو آج بھی حیربیار جیسے غداروں کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ ہر سال مارچ کے آخری دنوں میں یہ صاحب اپنے چند حواریوں کے ساتھ اپنے پرانے آقا کے حضور ’’ٹن ڈاؤننگ سٹریٹ‘‘ لندن پر پاکستان کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے اپنی جعلی مظلومیت کا راگ الاپتے ہیں جس میں ہمارے کچھ میڈیا پرسن بھی ان کے ساتھ ہی قوالی میں شریک ہو جاتے ہیں۔ کیا مناسب ہو گا کہ اس مرتبہ ’’ٹن ڈاؤننگ سٹریٹ‘‘ پر ان بچوں کو کھڑا کرکے عالمی ضمیر سے پوچھا جائے کہ ان کا کیا گناہ ہے؟ جو لوگ انہیں اپنے گھناؤنا مقاصد کے لیے آلہ کار بناتے ہیں وہ انسانیت کی سطح سے گر کر حیوانیت کی سطح پر اتر آتے ہیں۔ انہیں تو انسان سمجھنا ہی زیادتی ہے جب کہ وہ خود کو مظلوم اور آزادی پسند کہتے ہیں۔ ان بردہ فروشوں کو کس نے حق دیا ہے کہ وہ غیور بلوچوں کی نمائندگی کریں؟
read more →

Tomorrow Part (2)

انسانیت کے اجتماعی ضمیر کا قتل کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے بالآخر افضل گوروکو قتل کر دیا اور قتل کرنے کے بعد اس کا جسد خاکی اس کے پیاروں کے حوالے کرنے کے بجائے اسے تہاڑ جیل ہی میں دبا دیا۔ جہاں پہلے ہی بقول بھارتی حکومت مقبول بٹ شہید کو بھی دفن کیا گیا تھا۔ مقبول بٹ کو فروری 1984ء میں اسی انداز میں چوروں کی طرح پھانسی دے کر اس کا جسد خاکی بھی اس کے پیاروں کے حوالے نہیں کیا گیا۔ اسے بھی اسی طرح تہاڑ جیل میں دبا دیا گیا۔ دونوں مرتبہ بھارتی حکومت نے ایک جیسا بیان جاری کیا یعنی دونوں کو دفن کیا گیا ہے لیکن اس بات کا ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ملا۔
افضل گورو کو قتل کر نے سے دس گھنٹے پہلے بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا تھا جو تادم تحریر جاری ہے۔ عورتیں، بچے، مرد، بزرگ سب کو بھوکے پیاسے گھروں میں بند کر دیا گیا ہے۔ شیر خوار بچوں کو دودھ سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ جب کشمیری احتجاج کے لیے باہر نکلتے ہیں ان پر گولیوں کا مینہ برسایا جاتا ہے۔ گیارہ فروری کی اطلاعات کے مطابق تیس بے گناہ کشمیری دوران احتجاج قابض بھارتی فوج نے مار ڈالے۔ درجنوں زخمی ہیں۔ جنہیں ہسپتال لے جانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔ عملاً بھارتی حکومت نے اسرائیل کی مکمل نقل کرتے ہوئے جس طرح صہیونیوں نے غزہ کے مسلمانوں پر زندگی کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں بالکل وہی انداز اور ظالمانہ ہتھکنڈے یہاں بھی آزمائے جا رہے ہیں اور عالمی ضمیر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے یہ سارے مناظر تماشے کے انداز میں دیکھ رہا ہے۔
افضل گورو کے اس جیوڈیشل مرڈر پر بھارت کے باضمیر صحافی اور انسانیت دوست بھی سراپا احتجاج ہیں۔ افضل گورو کے قتل سے پہلے ہی ان کی طرف سے خاصا واویلا مچایا گیا لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے بھارتی حکومت نے خصوصاً اس مسئلے پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور یہ سارا خونی ڈرامہ امریکہ کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی رچایا گیا ہے ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ جس شخص کو بھارت کی اعلیٰ عدالت متعلقہ جرم میں بے گناہ قرار دے چکی ہو اور اس کے فیصلے میں یہ لکھا گیا ہو کہ وہ حملہ آوروں میں شامل نہیں تھا۔ پانچ حملہ آور جنہوں نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا وہ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں مارے گئے تھے۔ افضل گورو کو سری نگر سے اس حالت میں گرفتار کیا گیا کہ وہ شدید بیمار اور کئی روز سے بستر علالت پر تھا۔ بھارت کی تمام ہیومن رائٹس تنظیموں کا یہی احتجاج تھا کہ جب ایک شخص جرم کا براہ راست ذمہ دار ہی نہیں صرف اس شک کو بنیاد بنا کر وہ اس میں ملوث ہو سکتا ہے۔ اسے سزائے موت دینا کہاں کا انصاف تھا۔ جہاں انصاف کے چانکیائی پیمانے ہوں وہاں ایسا ہی انصاف ملتا ہے۔
عینی شاہد بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر افضل گورو کو پھانسی کی اطلاع چند گھنٹے پہلے دی گئی تھی جس پر انہوں نے انتہائی صبر اور ضبط کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے غسل کیا۔ نماز ادا کی۔ چائے کے چند گھونٹ پیئے اورقرآنی آیات کا ورد کرتے تختہ دار کی طرف چل دیے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ان کے چہرے پر دور دور تک خوف کا شائبہ تک نہیں تھا اور وہ معمول کے مطابق مسکرا رہے تھے۔ افسوس ظالموں نے ان کی بیوی بچوں کو ان کے جسد خاکی کا دیدار بھی نہیں کرنے دیا۔
افضل گورو کی شہادت کی خبر پھیلتے ہی سارا کشمیر سراپا احتجاج ہے۔ دلی میں کشمیری طلباء نے احتجاج کیا اور پرامن طور پر جب جمع ہوئے تو پولیس کی سربراہی میں آر۔ایس۔ ایس کے غنڈوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ ان پر بری طرح تشدد کیا۔ خواتین کے کپڑے پھاڑ ڈالے پولیس یہ سارا تماشا دیکھتی رہی۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا لیکن ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے کرفیو کشمیریوں کے راستے کی دیوار نہیں بنے۔ کشمیریوں نے جان لیا ہے کہ یہ لڑائی انہیں اکیلے ہی لڑنی ہے۔ آزادی کی یہ جنگ چوتھی نسل کو منتقل ہو رہی ہے اور بھارت اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ ظلم و جبر سے اس تحریک کو دبا لے گا۔
افضل گورو کا تعلق جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سے ہے جو مسلح جدوجہد پر یقین نہیں رکھتی لیکن 1984ء میں مقبول بٹ کو پھانسی لگنے کے بعد انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے تھے۔ یہی یٰسین ملک جو آج کل فلسفہ عدم تشدد کے پرچارک ہیں نے بھی ان ہی دنوں میں بندوق اٹھائی تھی لیکن بعد میں انہوں نے بندوق رکھ دی اور خود کو احتجاج تک محدود کر لیا۔ افضل گورو کا تعلق اس جماعت سے ہے وہ غالباً 1988ء میں پاکستان آئے تھے لیکن بعد میں انہوں نے بھی بندوق رکھ کر سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ آج بھارتیوں نے ان کو بھی مقبول بٹ کی طرح مار ڈالا اس کے بعد اگر بھارتی حکومت اس بات پر شاکی ہو کہ کشمیری نوجوانوں نے اسلحہ اٹھا لیا ہے اور پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دے تو اس سے زیادہ احمقانہ بات اور کیا ہو گی؟
حریت کانفرنس کے قیام کے بعد سے جس کے قیام کا مقصد سیاسی جدوجہد کے ذریعے کشمیر کی آزادی کا حصول ہے، بھارتی حکومت کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی اختیار کرتی اور اپنے پنڈت جی جواہر لال نہرو کی اس قرار داد کے لیے جو انہوں نے خود یو این او میں پیش کی تھی راہ ہموار کرتی۔ عین ممکن ہے سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے بھارتی حکومت کشمیر کی لیڈر شپ کے کچھ حصے کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جاتی آخر شیخ عبد اللہ اور ان کا خانوادہ بھی کشمیری ہی ہے اور بہت سے ایسے نام ہیں جو بھارت کی غلامی میں ہی رہنا احسن جانتے ہیں لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے بھارتیوں کو بھی اس بات کا یقین ہے کہ یہی لوگ ان کے آستین کے سانپ بنیں گے اور وقت آنے پر یہ سب کشمیری آزادی پسندوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اگر ایسی بات نہیں تو ماضی قریب خصوصاً جب سے بھارت نے اپنی پانچ لاکھ فوج کشمیریوں پر چڑھائی ہے تب سے ہی کوئی ایک ایسی مثال نہیں ملتی جب بھارت کی مرکزی حکومت نے مقامی کشمیری کٹھ پتلی حکومت کو مکمل اختیارات کے ساتھ قبول کیا ہو۔ یہ الگ بات کہ احمقوں کی جنت میں رہنے والے یہ کانگریسی کشمیری آج بھی بھارتی حکومت سے خیر کی توقع رکھتے ہیں۔
بھارت کے اس بیہمانہ اقدام سے جلد یا بدیر مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی یہ تحریک ماضی کی طرح مسلح جدوجہد کا راستہ اختیارکر لے گی اور اس کی ذمہ داری صرف اور صرف بھارتی حکومت پر ہو گی جس نے اپنی آنکھوں پر تعصب اور تکبر کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ کیونکہ نائن الیون کے بعد بدقسمتی سے پاکستان کو حقیقی قیادت نہیں مل سکی اور تب سے آج تک ہمارے ہاں وہی لوگ ایوان اقتدارمیں پہنچے ہیں جو کوئی نہ کوئی ’’معاہدہ‘‘ کر کے آتے ہیں جس میں غالباً سب سے اہم شق یہی ہے کہ آزادی کشمیر کے مسئلے پر گونگے بہرے بنے رہو بس کسی اہم موقع پر ایک آدھ بیان دے کر شلجموں سے مٹی جھاڑ لیا کرو۔ اس رویے نے تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ میں بد دلی پھیلا دی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کا حق ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے کسی بھی شہری کو آزاد کشمیر میں آنے سے روکنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز موجود نہیں لیکن ہم محض امریکی خوشنودی میں شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفا دار بننے کے لیے ایسے اقدامات کررہے ہیں جن سے پاکستان کی سلامتی کو ہی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ جہاں تک تحریک آزادی کشمیر کا تعلق ہے یہ لڑائی اب چوتھی نسل کو منتقل ہو رہی ہے ان کی قربانیوں کی داستان لازوال ہے لیکن ابھی شاید وہ ’’جرم ضعیفی‘‘ کے سزا وار ہیں اور بدقسمتی سے صرف فتح کے دوست ہوتے ہیں جلد وہ بھی فاتح بنیں گے اور اپنا حق حاصل کر کے رہیں گے۔ اگر ظلم و ستم اور پھانسیوں سے یہ معاملہ رکنے والا ہوتا تو کب کا ختم ہو جاتا۔
read more →

Tomorrow Part (1)

انسانیت کے اجتماعی ضمیر کا قتل کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے بالآخر افضل گوروکو قتل کر دیا اور قتل کرنے کے بعد اس کا جسد خاکی اس کے پیاروں کے حوالے کرنے کے بجائے اسے تہاڑ جیل ہی میں دبا دیا۔ جہاں پہلے ہی بقول بھارتی حکومت مقبول بٹ شہید کو بھی دفن کیا گیا تھا۔ مقبول بٹ کو فروری 1984ء میں اسی انداز میں چوروں کی طرح پھانسی دے کر اس کا جسد خاکی بھی اس کے پیاروں کے حوالے نہیں کیا گیا۔ اسے بھی اسی طرح تہاڑ جیل میں دبا دیا گیا۔ دونوں مرتبہ بھارتی حکومت نے ایک جیسا بیان جاری کیا یعنی دونوں کو دفن کیا گیا ہے لیکن اس بات کا ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ملا۔
افضل گورو کو قتل کر نے سے دس گھنٹے پہلے بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا تھا جو تادم تحریر جاری ہے۔ عورتیں، بچے، مرد، بزرگ سب کو بھوکے پیاسے گھروں میں بند کر دیا گیا ہے۔ شیر خوار بچوں کو دودھ سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ جب کشمیری احتجاج کے لیے باہر نکلتے ہیں ان پر گولیوں کا مینہ برسایا جاتا ہے۔ گیارہ فروری کی اطلاعات کے مطابق تیس بے گناہ کشمیری دوران احتجاج قابض بھارتی فوج نے مار ڈالے۔ درجنوں زخمی ہیں۔ جنہیں ہسپتال لے جانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔ عملاً بھارتی حکومت نے اسرائیل کی مکمل نقل کرتے ہوئے جس طرح صہیونیوں نے غزہ کے مسلمانوں پر زندگی کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں بالکل وہی انداز اور ظالمانہ ہتھکنڈے یہاں بھی آزمائے جا رہے ہیں اور عالمی ضمیر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے یہ سارے مناظر تماشے کے انداز میں دیکھ رہا ہے۔
افضل گورو کے اس جیوڈیشل مرڈر پر بھارت کے باضمیر صحافی اور انسانیت دوست بھی سراپا احتجاج ہیں۔ افضل گورو کے قتل سے پہلے ہی ان کی طرف سے خاصا واویلا مچایا گیا لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے بھارتی حکومت نے خصوصاً اس مسئلے پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور یہ سارا خونی ڈرامہ امریکہ کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی رچایا گیا ہے ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ جس شخص کو بھارت کی اعلیٰ عدالت متعلقہ جرم میں بے گناہ قرار دے چکی ہو اور اس کے فیصلے میں یہ لکھا گیا ہو کہ وہ حملہ آوروں میں شامل نہیں تھا۔ پانچ حملہ آور جنہوں نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا وہ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں مارے گئے تھے۔ افضل گورو کو سری نگر سے اس حالت میں گرفتار کیا گیا کہ وہ شدید بیمار اور کئی روز سے بستر علالت پر تھا۔ بھارت کی تمام ہیومن رائٹس تنظیموں کا یہی احتجاج تھا کہ جب ایک شخص جرم کا براہ راست ذمہ دار ہی نہیں صرف اس شک کو بنیاد بنا کر وہ اس میں ملوث ہو سکتا ہے۔ اسے سزائے موت دینا کہاں کا انصاف تھا۔ جہاں انصاف کے چانکیائی پیمانے ہوں وہاں ایسا ہی انصاف ملتا ہے۔
عینی شاہد بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر افضل گورو کو پھانسی کی اطلاع چند گھنٹے پہلے دی گئی تھی جس پر انہوں نے انتہائی صبر اور ضبط کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے غسل کیا۔ نماز ادا کی۔ چائے کے چند گھونٹ پیئے اورقرآنی آیات کا ورد کرتے تختہ دار کی طرف چل دیے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ان کے چہرے پر دور دور تک خوف کا شائبہ تک نہیں تھا اور وہ معمول کے مطابق مسکرا رہے تھے۔ افسوس ظالموں نے ان کی بیوی بچوں کو ان کے جسد خاکی کا دیدار بھی نہیں کرنے دیا۔
افضل گورو کی شہادت کی خبر پھیلتے ہی سارا کشمیر سراپا احتجاج ہے۔ دلی میں کشمیری طلباء نے احتجاج کیا اور پرامن طور پر جب جمع ہوئے تو پولیس کی سربراہی میں آر۔ایس۔ ایس کے غنڈوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ ان پر بری طرح تشدد کیا۔ خواتین کے کپڑے پھاڑ ڈالے پولیس یہ سارا تماشا دیکھتی رہی۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا لیکن ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے کرفیو کشمیریوں کے راستے کی دیوار نہیں بنے۔ کشمیریوں نے جان لیا ہے کہ یہ لڑائی انہیں اکیلے ہی لڑنی ہے۔ آزادی کی یہ جنگ چوتھی نسل کو منتقل ہو رہی ہے اور بھارت اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ ظلم و جبر سے اس تحریک کو دبا لے گا۔
افضل گورو کا تعلق جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سے ہے جو مسلح جدوجہد پر یقین نہیں رکھتی لیکن 1984ء میں مقبول بٹ کو پھانسی لگنے کے بعد انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے تھے۔ یہی یٰسین ملک جو آج کل فلسفہ عدم تشدد کے پرچارک ہیں نے بھی ان ہی دنوں میں بندوق اٹھائی تھی لیکن بعد میں انہوں نے بندوق رکھ دی اور خود کو احتجاج تک محدود کر لیا۔ افضل گورو کا تعلق اس جماعت سے ہے وہ غالباً 1988ء میں پاکستان آئے تھے لیکن بعد میں انہوں نے بھی بندوق رکھ کر سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ آج بھارتیوں نے ان کو بھی مقبول بٹ کی طرح مار ڈالا اس کے بعد اگر بھارتی حکومت اس بات پر شاکی ہو کہ کشمیری نوجوانوں نے اسلحہ اٹھا لیا ہے اور پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دے تو اس سے زیادہ احمقانہ بات اور کیا ہو گی؟
حریت کانفرنس کے قیام کے بعد سے جس کے قیام کا مقصد سیاسی جدوجہد کے ذریعے کشمیر کی آزادی کا حصول ہے، بھارتی حکومت کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی اختیار کرتی اور اپنے پنڈت جی جواہر لال نہرو کی اس قرار داد کے لیے جو انہوں نے خود یو این او میں پیش کی تھی راہ ہموار کرتی۔ عین ممکن ہے سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے بھارتی حکومت کشمیر کی لیڈر شپ کے کچھ حصے کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جاتی آخر شیخ عبد اللہ اور ان کا خانوادہ بھی کشمیری ہی ہے اور بہت سے ایسے نام ہیں جو بھارت کی غلامی میں ہی رہنا احسن جانتے ہیں لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے بھارتیوں کو بھی اس بات کا یقین ہے کہ یہی لوگ ان کے آستین کے سانپ بنیں گے اور وقت آنے پر یہ سب کشمیری آزادی پسندوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اگر ایسی بات نہیں تو ماضی قریب خصوصاً جب سے بھارت نے اپنی پانچ لاکھ فوج کشمیریوں پر چڑھائی ہے تب سے ہی کوئی ایک ایسی مثال نہیں ملتی جب بھارت کی مرکزی حکومت نے مقامی کشمیری کٹھ پتلی حکومت کو مکمل اختیارات کے ساتھ قبول کیا ہو۔ یہ الگ بات کہ احمقوں کی جنت میں رہنے والے یہ کانگریسی کشمیری آج بھی بھارتی حکومت سے خیر کی توقع رکھتے ہیں۔
بھارت کے اس بیہمانہ اقدام سے جلد یا بدیر مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی یہ تحریک ماضی کی طرح مسلح جدوجہد کا راستہ اختیارکر لے گی اور اس کی ذمہ داری صرف اور صرف بھارتی حکومت پر ہو گی جس نے اپنی آنکھوں پر تعصب اور تکبر کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ کیونکہ نائن الیون کے بعد بدقسمتی سے پاکستان کو حقیقی قیادت نہیں مل سکی اور تب سے آج تک ہمارے ہاں وہی لوگ ایوان اقتدارمیں پہنچے ہیں جو کوئی نہ کوئی ’’معاہدہ‘‘ کر کے آتے ہیں جس میں غالباً سب سے اہم شق یہی ہے کہ آزادی کشمیر کے مسئلے پر گونگے بہرے بنے رہو بس کسی اہم موقع پر ایک آدھ بیان دے کر شلجموں سے مٹی جھاڑ لیا کرو۔ اس رویے نے تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ میں بد دلی پھیلا دی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کا حق ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے کسی بھی شہری کو آزاد کشمیر میں آنے سے روکنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز موجود نہیں لیکن ہم محض امریکی خوشنودی میں شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفا دار بننے کے لیے ایسے اقدامات کررہے ہیں جن سے پاکستان کی سلامتی کو ہی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ جہاں تک تحریک آزادی کشمیر کا تعلق ہے یہ لڑائی اب چوتھی نسل کو منتقل ہو رہی ہے ان کی قربانیوں کی داستان لازوال ہے لیکن ابھی شاید وہ ’’جرم ضعیفی‘‘ کے سزا وار ہیں اور بدقسمتی سے صرف فتح کے دوست ہوتے ہیں جلد وہ بھی فاتح بنیں گے اور اپنا حق حاصل کر کے رہیں گے۔ اگر ظلم و ستم اور پھانسیوں سے یہ معاملہ رکنے والا ہوتا تو کب کا ختم ہو جاتا۔
read more →

US and Israel Friendship

ناپاک صہیونی ریاست اسرائیل نے امریکی صدر کی سرپرستی میں بھی ایک مظلوم ریاست فلسطین پر اپنے حملے جاری رکھے۔ اسرائیل نے فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ بحری جہازوں سے بھی غزہ میں میزائل داغے ہیں۔ اسرائیلی کارروائی میں اب تک ساٹھ سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ نے اب تک فلسطین کے چھ سو سے زائد مقامات پر بمباری کی ہے۔ اس جارحیت کو امریکی صدر اوباما اسرائیل کا حق قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ سے راکٹ حملوں کو بند کرنے کے لیے اب بھی غزہ میں سینکڑوں اہداف ایسے ہیں جن کو نشانہ بنانا باقی ہے۔
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ایک درجن سے زیادہ دھماکے غزہ میں سنائی دیے۔ یہ میزائل جنگی بحری جہازوں سے فائر کیے گئے تھے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم نے مزید کہا کہ غزہ میں ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں اور ان ہسپتالوں میں طبی سپلائی کم پڑ رہی ہے۔ اسرائیل کے وزیر داخلہ ایلی یشئی نے کہا ہے کہ آپریش پلر آف ڈیفنس کا مقصد غزہ کو پتھر کے زمانے میں واپس بھیجنا ہے اور پھر ہی اسرائیل میں اگلے چالیس سال تک سکون رہے گا۔ اسرائیلی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں سے حماس کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ لیکن حماس کی عسکری صلاحیت کو ختم کرنے کے لیے زمینی کارروائی ضروری ہے۔ غزہ میں ترجمان کا کہنا ہے کہ سڑکیں سنسان پڑی ہیں اور فضا میں جنگی جہاز اور ڈرون پرواز کر رہے ہیں۔ لوگ صرف خوراک یا ایندھن لینے کے لیے مکانوں سے نکلتے ہیں۔ ادھر اتوار کے روز اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے غزہ میں ایک کمپاؤنڈ کو گولا باری کا نشانہ بنایا ہے۔ شہر کے مرکز میں واقع برج الشو پر اسرائیلی توپخانے نے تین میزائل فائر کیے۔ عمارت کے مختلف حصوں کو عرب اور غیر ملکی میڈیا اپنے دفاتر اور مشہور وکلاء اپنے چیمبرز کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ غزہ کے وسط میں واقع یہ عمارت مقامی اور بین الاقوامی طور پر میڈیا کمپاؤنڈ کے طور پر جانی پہچانتی جاتی تھی۔ حنان المصری نے کہا کہ عمارت میں کوئی مزاحمت کار یا مسلح فرد موجود نہیں تھا، اس کے باوجود اسرائیل نے اس پر گولا باری کی۔ دریں اثناء اسرائیلی ذرائع نے بتایا کہ اسرائیل کے لڑاکا طیاروں نے ہفتے کے روز غزہ کے مختلف علاقوں پر حملے کیے۔ بمباری اور فضائی حملوں میں غزہ کے فلسطین حکومت کے دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔
ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایک حملے میں عزالدین القسام کے ایئر ڈیفنس شعبے کے کمانڈر اسامہ القاضی بھی شہید کر دیے گئے۔ غزہ سے ہفتے کے روز داغے جانے والے میزائلوں کی تعداد انہی ذرائع نے 165بتائی ہے۔ حماس کے عسکری شعبے کے عزالدین القسام کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجوؤں نے تل ابیب اور بیت المقدس سمیت اسرائیل کے مختلف شہروں پر 900حملے کیے۔ ترجمان ابوعبیدہ نے دعویٰ کیا کہ ان کے القسام ایئر ڈیفنس یونٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ بھی مار گرایا جو غزہ سے متصل سمندر میں جا گرا۔ نیز حماس نے دو بغیر پائلٹ اسرائیلی ڈرونز بھی مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ ابو عبیدہ نے مزید کہا کہ ہم نے اسرائیل کے اہم اور حساس مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ ان میں بری اور فضائی فوج کے بیس اسٹیشن اور ہیلی پیڈز شامل ہیں۔ ہمارے حملوں کے خوف سے پانچ ملین اسرائیلی شہری زیر زمین بنکروں اور محفوظ پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملوں میں بچوں اور خواتین کی بہت بڑی تعداد شہید ہو چکی ہے۔ گزشتہ دنوں مصری فارمسسٹ ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمد عبد الجواد نے انجمن کے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ اسرائیلی جارحیت کی شکار غزہ کی پٹی کا دورہ کیا۔ ڈاکٹر عبد الجواد ایک ہسپتال کے دورے کے موقع پر وہاں ایک جھلسی ہوئی ننھی پری کو دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے۔ شیر خوار بچی کا جسم اسرائیلی بمباری سے بری طرح جھلس گیا تھا۔ عبد الجواد نے جھلسی ہوئی ننھی بچی کو ہاتھوں میں اٹھا کر کہا کہ ’’ میں یہ ننھی شہید یورپ، یو این سیکرٹری جنرل اور فلسطین کے دفاع میں پس و پیش کے شکار عربوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ انہیں اس جلی ہوئی مگر مسکراتی شہیدہ کا تحفہ مبارک ہو۔‘‘ انہوں نے کہا کہ حالیہ اسرائیلی حملوں میں 80فیصد زخمی عورتیں اور بچے ہیں جبکہ 20فیصد زخمی نوجوان ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں اسرائیلی حملے میں عزالدین القسام بریگیڈ کے کمانڈر احمد الجعبری کی شہادت کے بعد حماس کے رد عمل سے صہیونی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی جبکہ دوسری جانب شہید الجعیری کے قبیلے نے اپنے مایہ ناز سپوت کی عظیم قربانی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے مٹھائی تقسیم کی۔ اہل خانہ نے اپنے بہادر بیٹے کی شہادت پر اہل علاقہ سے مبارکباد وصول کی۔ مبارکباد دینے والوں کی تواضع مٹھائی سے کی گئی۔ اسلامی تحریک مزاحمت حماس کا کہنا ہے کہ ہم اپنے کمانڈر کا بدلہ ضرور لیں گے اور غزہ کے خلاف جارحیت کا آغاز تو اسرائیل نے کیا لیکن اب اس جنگ کو ختم کرنے کا فیصلہ تل ابیب کے اختیار میں نہیں رہا۔ ابو زہری کا کہنا تھا کہ ہم قابض اسرائیلیوں کے دھوکے میں مزید نہیں آئیں گے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں جنگ بندی کا ذکر دراصل غزہ پر اسرائیلی چڑھائی کو جاری رکھنے میں ڈھال کا کام کرے گا۔ خالد مشعل نے کہا کمزور دشمن غزہ کو زیر نگین نہیں کر سکتا۔ ہم انہیں مار بھگائیں گے کیونکہ غاصب اسرائیل فلسطین کے اصل وارثوں کو دھکا نہیں سکتا۔ خالد مشعل کا کہنا تھا کہ غزہ پر فوجی حملے سے دراصل اسرائیل مسلم حکمرانوں کا امتحان لینا چاہتا ہے کہ کیا آج کی قیادت ماضی کی طرح اس معاملے کو دیکھے گی یا پھر موجودہ قیادت اسرائیلی جارحیت کا نئی سوچ اور قابل اعتبار عملی اقدامات سے اس کا مقابلہ کرتی ہے۔ اب اسرائیل کے خاتمے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سب نے مل کر اسرائیل کو جواب دینے کا قصد کر لیا تو ایسا کر کے آپ خود سے بڑی نیکی کریں گے جبکہ حماس کے ایک ہیکر گروپ نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے حالیہ جارحانہ حملوں کے رد عمل میں صہیونی حکومت کی ویب سائٹس پر حملے شروع کر دیے ہیں اور اس کی متعدد ویب سائٹس کو ناکارہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس گروپ نے اپنے ٹیوٹر پیغام میں کہا ہے کہ ’’ اب تک بہت سی اسرائیلی ویب سائٹس کا حلیہ بگاڑا جا چکا ہے۔ گلوبل پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اس نامعلوم گروپ نے اسرائیلی فوج، وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے علاوہ سکیورٹی اور مالیاتی اداروں کی ویب سائٹس کا حلیہ بگاڑنے اور انہیں تباہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس گروپ نے ایک سائٹ پر اپنا پیغام بھی پوسٹ کیا ہے جس میں کہا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کی سکیورٹی اور نگرانی کی ایک اہم ویب سائٹ کو ناکارہ کر دیا ہے اور جب تک بزدل صہیونی ریاست بے گناہ شہریوں پر حملے جاری رکھتی ہے تو وہ بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا۔
فلسطین کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کی دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔ فلسطینی شہر غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے تازہ حملوں کے بعد پوری اسلامی دنیا اور عالمی برادری میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ کی پٹی پر صہیونی حملوں کے خلاف دنیا کے 50 سے زائد ملکوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ یہ مظاہرے مصر، اردن، لیبیا، لبنان، ایران، پاکستان، ملائیشیا، فرانس، سڈنی، نیو یارک، لندن، استنبول اور انقرہ سمیت دنیا کے 50ملکوں میں ہوئے جہاں صہیونی ریاستی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔ مصر میں الا خوان المسلمون کی جانب سے نصرت غزہ کے عنوان سے تحریر سکوائر میں دس لاکھ لوگوں کو جمع کیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر حماس زندہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے درج تھے۔ مظاہرین نے صہیونی ریاست کے ساتھ تجارتی ، سیاسی، سفارتی اور ثقافتی ہرطرح کے تعلقات ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
لبنان بیروت میں بھی ہزاروں افراد نے اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ادھر یمن کے دارالحکومت صنعاء میں بھی ہزاروں افراد نے نصرت فلسطین ریلی کا اہتمام کیا۔ یمن کے علاوہ ملائیشیا، ترکی، فرانس، اردن، امریکہ اور برطانیہ میں بھی فلسطینیوں کے خلاف صہیونی جارحیت کی مذمت میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ ان ملکوں میں عرب مظاہرین اور مسلمان شہریوں کے علاوہ مقامی باشندوں کی بڑی تعداد بھی شریک تھی۔ انقرہ اور استنبول میں ہزاروں افراد نے غزہ میں اسرائیلی حملوں کے خلاف مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے اور اسرائیلی پرچم بھی جلایا۔ روس کے دارالحکومت ماسکو میں بھی غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف سینکڑوں افراد سڑکوں پر آگئے۔ ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ غزہ میں بے گناہ نونہالوں کے قتل عام پر اسرائیل کا محاسبہ لازمی کیا جانا چاہیے۔ غزہ میں غیر انسانی طریقے سے شہید کیے جانے والے فلسطینی بچوں کے قاتلوں سے جلد یا بدیر حساب ضرور لیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’فلسطینی نے کبھی اپنا سر نہیں جھکایا اور نہ ہی وہ کبھی آئندہ ایسا کریں گے۔ قاہرہ اور ترکی نے یک زبان ہو کر غزہ پر اسرائیلی بربریت کی پر زور مذمت کی ہے۔ جمعہ کے روز مصری وزیر اعظم ڈاکٹر ہشام قندیل نے غزہ کا دورہ کیا۔ جبکہ ہفتے کے روز تیونس کے وزیر خارجہ رفیق عبد السلام اہالیاں غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے رفح کراسنگ کے ذریعے تباہ حال غزہ آئے۔ رفیق عبد السلام نے کہا کہ اسرائیل شاید اپنی جارحیت کے ذریعے تیونس اورعرب ملکوں کو پیغام دینا چاہتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اسرائیل سن لو: ’’ ہم مسئلہ فلسطین کی حمایت اور غزہ میں اپنے بھائیوں کی مدد کرتے رہیں گے۔ مصر نے فلسطین کے معملے پر پاکستان سے مدد مانگی تھی۔ پاکستان نے بھی غزہ پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی علاقے پر اسرائیل کے زمینی حملے کی دھمکیاں اس سے زیادہ تشویشناک ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی تحریک کی واضح اور صریح حمایت کی ہے اور پاکستان سمجھتا ہے کہ جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا اس وقت تک مشرق وسطیٰ میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
ہم فلسطین کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی خواہش کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور یہ کہ اب مزید فلسطینیوں کے حقوق غصب نہیں کیے جا سکتے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے جس میں نہ صرف حماس کی قیادت بلکہ معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ترجمان نے مزید کہا ہے کہ ہم بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے آگے آئے اور اس سلگتے ہوئے مسئلے کے پر امن حل کے لئے مل کر کردار ادا کرے۔ دوسری طرف قاہرہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے عرب لیگ ممالک کے وزراء کو دعوت دے اور ان پرزور دیا جائے کہ امریکہ اور اسرائیل کو غزہ پر فضائی حملوں کا سلسلہ بند کرنے کے لیے تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کی جانوں کے تحفظ کے لیے تیل کو اقتصادی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عرب ممالک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ فلسطینی شہر غزہ پر اسرائیلی جارحیت ک شدید مذمت کرتے ہوئے سعودی عرب نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیلی حملوں کی روک تھام کے لیے جرات مندانہ اقدام کیا جائے۔ سعودی وزیر مملکت برائے امور خارجہ ڈاکٹر نزار بن عبید مدنی نے کہا کہ اسرائیل کی حالیہ دہشت گردی پر خاموش تماشائی رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ جارحیت کے مرتکب صہیونیوں کو اپنے جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کے غیر موثر اقدامات نے اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف جبر و تشدد کی پالیسی برقراررکھنے کا جواز فراہم کیا ہے۔ تازہ حملوں سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ صہیونی ریاست کے ہاں قیام کے لیے عالمی اقدامات، عرب لیگ اور سلامتی کونسل قرار دادوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ سعودی وزیر نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو اس کے سنگین نتائج نکلیں گے اور ان کی تمام تر ذمہ داری صہیونی حکومت پر عائد ہو گی۔ پاکستان کے سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے غزہ پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی دہشت گردی کو انسانیت سوز ظلم قرار دیا ہے اور اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت بند کرانے کے لئے کردار ادا کرے۔ انہوں نے اپنے بیانات میں کہا کہ معصوم فلسطینیوں کا قتل عام انسانی حقوق اورعالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، پاکستانی قوم اس مشکل گھڑی میں مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ دفاع پاکستان کونسل نے اسرائیل کی طرف سے نہتے فلسطینی مسلمانوں پر بمباری اور امریکہ، و اقوام متحدہ کی طرف سے اسرائیلی حملوں کی حمایت پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ دہشت گرد اسرائیل کو امریکی صدر اوباما اور اقوام متحدہ کی کھلی حمایت حاصل ہے۔ فلسطینیوں کی مدد کے حوالے سے پاکستان کو مصری صدر کی پیشکش کا بھرپور جواب دینا چاہیے۔ او آئی سی، عرب لیگ اور دیگر مسلمان ملکوں کے ادارے و حکمران کھل کر مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دیں۔


read more →