ان حالات میں کہ جب پاکستان میں بڑے زور شور سے امن کی آشا کا بھونپو بجایا
جا رہا ہے۔ بھارتی صحافیوں کا وفد لاہور آیا ہے۔ چند روز پہلے ماضی کے
ایکٹر شتروگن سہنا جن کی صاحبزادی نے آج کل بھارتی فلم انڈسٹری میں جھنڈے
گاڑے ہوئے ہیں شتروگن سہنا کو جن کے والد ہونے پر بڑا فخر بھی ہے وہ آج کل
پاکستانی سیاستدانوں سے ملاقاتیں فرما رہے ہیں۔ امتیاز راشد صاحب میاں نواز
شریف کے پاک بھارت معاملات پر ’’کار خاص‘‘ بن کر ان سے تقاریر کروا رہے
ہیں جس میں میاں صاحب بھارت کے لیے محبت کی شیرینی تقسیم کرتے دکھائی دیتے
ہیں۔ ایک بڑا میڈیا گروپ عرصے سے اس مشن پر ڈٹا ہے لیکن اس سب کا حاصل کیا
ہے؟
چند روز پہلے پاکستانی ٹیم جب بھارت میچ کھیلنے گئی تو آپ نے بھارتی شائقین کے رویے سے اندازہ کر لیا ہو گا کہ وہ پاکستان سے نفرت کے چکر میں ’’سپورٹس مین سپرٹ‘‘ بھی ختم کر چکے ہیں اور ہر صورت بھارت کو غالب اور پاکستان کو مغلوب دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان کی طرف سے بے پناہ محبت کے مظاہرے کے جواب میں بھارتی ٹیم نے کسی نیوٹرل جگہ پر بھی پاکستان سے میچ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے ہمارے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بے پناہ اظہار عشق اور درخواستوں کے بعد وہ غالباً چھ ماہ بعد لندن میں ایک میچ کھیلنے پر تیار ہوئے ہیں لیکن ہم نا امید نہیں اور ابھی تک ڈھٹائی سے اپنے کام میں لگے ہیں۔
بھارتی فوج کی طرف سے پاکستانی پوسٹ پر بزدلانہ حملہ اور نائیک اسلم کی شہادت اس کی تازہ مثال ہے۔ جب پاکستان نے اس پر احتجاج کیا اور بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے احتجاجی لیٹر انہیں تھمایا تو اگلے ہی روز بھارت کی طرف سے پاکستانی فوج کے مقبوضہ کشمیر میں کسی پوسٹ پر جعلی حملے کا واویلا شروع ہو گیا جس میں عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی فوج نے حملہ کر کے دو بھارتیوں کو مار ڈالا اور ان کے سر بھی کاٹ کر ساتھ لے گئے ہیں۔ دلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کر کے احتجاجی مراسلہ دیا گیا ہے۔ اس طرح بھارت نے فوراً اپنی دانست میں کھیل برابر کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے جبکہ پاکستان نے ایسے کسی بھی حملے سے انکار کرتے ہوئے اسے پاکستان کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد الزام قرار دیا ہے لیکن بھارتی میڈیا اور حکومت بڑی ہٹ دھرمی سے اس جھوٹ کے ڈھول کو پیٹ پیٹ کر آسمان سر پر اٹھا رہے ہیں یہ ڈھٹائی اور جھوٹ کی انتہاہے کہ بھارتی حکومت ایک جعلی واقعہ کھڑا کر کے اس پر باقاعدہ پاکستان کے خلاف مہم چلا رہی ہے جبکہ پاکستان آئی ایس پی آر نے ایسے کسی بھی واقعے سے انکار کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھارت نے ان حالات میں جب حکومت پاکستان سنجیدگی سے بھارت کو ’’موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ کا درجہ دینے پر غور کر رہی ہے۔ ایسی حرکت کیوں کی؟ جس کا صاف اور سیدھا جواب تو یہ ہے کہ بھارت میں موجود ’’ہاکس‘‘ کبھی پاکستان سے تعلقات نارمل ہونے نہیں دیں گے۔ ان میں سٹیٹ اور نان سٹیٹ دونوں ایکٹرز شامل ہیں۔ پاکستان نے جنرل مشرف کے دور سے بھارت کے تئیں یہ پالیسی اپنا رکھی ہے کہ بھارت کی کسی بھی اشتعال انگیزی کا جواب غصے سے نہیں دینا اور بھارت کی طرف سے پاکستان پر شدت پسندی کے الزام کو غلط ثابت کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد اشتعال انگیز کارروائیوں کے باوجود پاکستان نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے عالمی سطح پر بھارتی پراپیگنڈہ کی نفی ہونا شروع ہو گئی ہے۔
بھارت کی طرف سے پاکستانی پوسٹ پر حملہ اور ایک جوان کی شہادت کے بعد امریکہ اور چین دونوں نے اس کا نوٹس لیا امریکہ نے تو حسب معمول منافقانہ انداز میں مدعی اور ملزم کو ایک ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور یہ کہا کہ آئندہ ایسے واقعات نہیں ہونے چاہئیں جبکہ چینی وزارت خارجہ نے بھارت کی طرف سے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے خطے کی امن میں گڑ بڑ پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا۔ جس کے بعد بھارت نے پاکستان پر جھوٹی جوابی الزام تراشی شروع کر دی ہے۔ پاکستان وزارت خارجہ نے بھی اس جھوٹے الزام کی شدت سے تردید کی ہے لیکن تادم تحریر بھارتی الیکٹرونک میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔
پاکستان کی طرف سے بھارت سے تعلقات کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں ایک طرف لیکن بھارتی حکومت ایک ایسی حرکت کرتی ہے کہ سب کچھ بگڑ کر رہ جاتا ہے۔ جو بات ہم سمجھ نہیں پاتے وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ بھارت پاکستان آرمی کو دنیا کے سامنے ایک دہشت گرد آرمی بنا کر پیش کر رہا ہے۔ جس کے لیے وہ عجیب و غریب قسم کے ڈرامے رچاتا ہے۔ جب دنیا کو یہ بتایا جائے کہ کسی ملک کی فوج نے اپنے مخالف ملک کے فوجیوں کے سر کاٹ لیے یا مارنے سے پہلے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو اس فوج سے متعلق کیا رائے قائم ہو گی؟ بنگلہ دیش میں 1971ء کے گڑے مردے اکھاڑنے کی مہم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جس میں سارا ملبہ پاکستانی فوج پر گرانے کی سازش کی جا رہی ہے اور ایسی ایسی ظلم و ستم کی جھوٹی کہانیاں منظر عام پر لائی جائیں گی کہ خدا کی پناہ۔ بدقسمتی کی انتہا تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں لبرل فاشسٹوں کا ایک ایسا گروہ پہلے سے موجود ہے جو دشمن کو مظلوم اور اپنوں کو ظالم ثابت کرنے کے لیے تمام صحافتی اور اخلاقی اقدار کو روندنے پر تلا ہے۔ ان حالات میں اگر ہم نے آنکھیں بند کر کے تصویر کا صرف ایک ہی رخ دیکھنے کی ضد جاری رکھی تو ہم اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودیں گے۔
چند روز پہلے پاکستانی ٹیم جب بھارت میچ کھیلنے گئی تو آپ نے بھارتی شائقین کے رویے سے اندازہ کر لیا ہو گا کہ وہ پاکستان سے نفرت کے چکر میں ’’سپورٹس مین سپرٹ‘‘ بھی ختم کر چکے ہیں اور ہر صورت بھارت کو غالب اور پاکستان کو مغلوب دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان کی طرف سے بے پناہ محبت کے مظاہرے کے جواب میں بھارتی ٹیم نے کسی نیوٹرل جگہ پر بھی پاکستان سے میچ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے ہمارے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بے پناہ اظہار عشق اور درخواستوں کے بعد وہ غالباً چھ ماہ بعد لندن میں ایک میچ کھیلنے پر تیار ہوئے ہیں لیکن ہم نا امید نہیں اور ابھی تک ڈھٹائی سے اپنے کام میں لگے ہیں۔
بھارتی فوج کی طرف سے پاکستانی پوسٹ پر بزدلانہ حملہ اور نائیک اسلم کی شہادت اس کی تازہ مثال ہے۔ جب پاکستان نے اس پر احتجاج کیا اور بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے احتجاجی لیٹر انہیں تھمایا تو اگلے ہی روز بھارت کی طرف سے پاکستانی فوج کے مقبوضہ کشمیر میں کسی پوسٹ پر جعلی حملے کا واویلا شروع ہو گیا جس میں عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی فوج نے حملہ کر کے دو بھارتیوں کو مار ڈالا اور ان کے سر بھی کاٹ کر ساتھ لے گئے ہیں۔ دلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کر کے احتجاجی مراسلہ دیا گیا ہے۔ اس طرح بھارت نے فوراً اپنی دانست میں کھیل برابر کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے جبکہ پاکستان نے ایسے کسی بھی حملے سے انکار کرتے ہوئے اسے پاکستان کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد الزام قرار دیا ہے لیکن بھارتی میڈیا اور حکومت بڑی ہٹ دھرمی سے اس جھوٹ کے ڈھول کو پیٹ پیٹ کر آسمان سر پر اٹھا رہے ہیں یہ ڈھٹائی اور جھوٹ کی انتہاہے کہ بھارتی حکومت ایک جعلی واقعہ کھڑا کر کے اس پر باقاعدہ پاکستان کے خلاف مہم چلا رہی ہے جبکہ پاکستان آئی ایس پی آر نے ایسے کسی بھی واقعے سے انکار کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھارت نے ان حالات میں جب حکومت پاکستان سنجیدگی سے بھارت کو ’’موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ کا درجہ دینے پر غور کر رہی ہے۔ ایسی حرکت کیوں کی؟ جس کا صاف اور سیدھا جواب تو یہ ہے کہ بھارت میں موجود ’’ہاکس‘‘ کبھی پاکستان سے تعلقات نارمل ہونے نہیں دیں گے۔ ان میں سٹیٹ اور نان سٹیٹ دونوں ایکٹرز شامل ہیں۔ پاکستان نے جنرل مشرف کے دور سے بھارت کے تئیں یہ پالیسی اپنا رکھی ہے کہ بھارت کی کسی بھی اشتعال انگیزی کا جواب غصے سے نہیں دینا اور بھارت کی طرف سے پاکستان پر شدت پسندی کے الزام کو غلط ثابت کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد اشتعال انگیز کارروائیوں کے باوجود پاکستان نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے عالمی سطح پر بھارتی پراپیگنڈہ کی نفی ہونا شروع ہو گئی ہے۔
بھارت کی طرف سے پاکستانی پوسٹ پر حملہ اور ایک جوان کی شہادت کے بعد امریکہ اور چین دونوں نے اس کا نوٹس لیا امریکہ نے تو حسب معمول منافقانہ انداز میں مدعی اور ملزم کو ایک ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور یہ کہا کہ آئندہ ایسے واقعات نہیں ہونے چاہئیں جبکہ چینی وزارت خارجہ نے بھارت کی طرف سے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے خطے کی امن میں گڑ بڑ پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا۔ جس کے بعد بھارت نے پاکستان پر جھوٹی جوابی الزام تراشی شروع کر دی ہے۔ پاکستان وزارت خارجہ نے بھی اس جھوٹے الزام کی شدت سے تردید کی ہے لیکن تادم تحریر بھارتی الیکٹرونک میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔
پاکستان کی طرف سے بھارت سے تعلقات کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں ایک طرف لیکن بھارتی حکومت ایک ایسی حرکت کرتی ہے کہ سب کچھ بگڑ کر رہ جاتا ہے۔ جو بات ہم سمجھ نہیں پاتے وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ بھارت پاکستان آرمی کو دنیا کے سامنے ایک دہشت گرد آرمی بنا کر پیش کر رہا ہے۔ جس کے لیے وہ عجیب و غریب قسم کے ڈرامے رچاتا ہے۔ جب دنیا کو یہ بتایا جائے کہ کسی ملک کی فوج نے اپنے مخالف ملک کے فوجیوں کے سر کاٹ لیے یا مارنے سے پہلے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو اس فوج سے متعلق کیا رائے قائم ہو گی؟ بنگلہ دیش میں 1971ء کے گڑے مردے اکھاڑنے کی مہم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جس میں سارا ملبہ پاکستانی فوج پر گرانے کی سازش کی جا رہی ہے اور ایسی ایسی ظلم و ستم کی جھوٹی کہانیاں منظر عام پر لائی جائیں گی کہ خدا کی پناہ۔ بدقسمتی کی انتہا تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں لبرل فاشسٹوں کا ایک ایسا گروہ پہلے سے موجود ہے جو دشمن کو مظلوم اور اپنوں کو ظالم ثابت کرنے کے لیے تمام صحافتی اور اخلاقی اقدار کو روندنے پر تلا ہے۔ ان حالات میں اگر ہم نے آنکھیں بند کر کے تصویر کا صرف ایک ہی رخ دیکھنے کی ضد جاری رکھی تو ہم اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودیں گے۔
0 comments: