’’
دوستی گروپ‘‘ کے نام سے سی سی پی او کوئٹہ نے بالآخر بچوں کا وہ گروپ پکڑ
لیا جن کو بلوچ سرداروں کے گماشتے جو بلوچستان کو آزاد کروانے چلے ہیں ،
اپنے گھناؤنے ترین مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ جی ہاں! ان بچوں کی
زبانی علم میں آیا کہ ان کے غربت ان کے لیے جہنم کا پھندا بن گئی۔ظالم
درندوں نے انہیں کھوجا چند سو روپے کا لالچ دیا اپنے ساتھ لگا لیا۔ سب سے
پہلے انہیں قابو کرنے کے لئے نشے کی لت ڈالی گئی پھر ان کا جنسی استحصال
ہوا جس کے بعد ان سے دھماکے کروائے گئے۔ ان بچوں نے کئی ایسے خوفناک اور
تباہ کن دھماکوں کا اعتراف کیا جو ان سے بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے
کروائے تھے جن میں اب تک سینکڑوں بے گناہ پاکستانی مارے جا چکے ہیں۔ لعنت
ہے ان علیحدگی پسندوں اور ان کے ہمدردوں پر جو ان بچوں کی معصومیت کا ایسا
بھیانک استعمال کر رہے تھے۔ ان کے ذریعے اسلحہ سمگل کرواتے تھے۔ ان کے
ذریعے ویگنوں اور شاہراہوں پر بم نصب کرواتے تھے۔ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ بدترین دہشت گردی کا منصوبہ بنانے والے گمراہ بلوچ نوجوان نہیں ہو سکتے اگر وہ واقعی بلوچ والدین کی اولاد ہیں تو ایسی بے غیرتی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جو ہمیں ٹی وی سکرینوں پر دکھائی دے رہی ہے۔ یہ ’’کارنامہ‘‘ ان کے ’’مالکان‘‘ یعنی غیر ملکی ہینڈلرز کا ہے جنہوں نے گمراہ نوجوانوں کو یہ راستہ دکھایا۔ یہ گھناؤنی سکیم سمجھائی اور اس پر عمل کروایا۔ دنیا کی تین ایسی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں جن سے اس نوعیت کے گھٹیا آپریشن کی توقع کی جا سکتی ہے جن میں ’’موساد‘‘۔۔۔ ’’را‘‘ اور ’’سی آئی اے‘‘ شامل ہے۔ تینوں اداروں کی ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اس سے پہلے بھی اس نوعیت کے کارنامے انجام دے چکے ہیں۔
ان بچوں کی گرفتاری کے بعد اب یہ دیکھنا ہے کہ علیحدگی پسند گروپوں کے گاڈ فادر جو دوبئی اور لندن کے عشرت کدوں میں گلچھڑے اڑا رہے ہیں اپنی صفائی میں کیا کہتے ہیں؟ اور ہمارے وہ میڈیا کے بھائی بند جن کی اکثریت صرف بغض معاویہ یا پھر ٹوہر پٹے کے چکر میں دن رات ایجنسیوں کے خلاف صف ماتم بچھائے رکھتی ہے اس کی طرف سے ’’ایجنسیوں کے اس ایکشن‘‘ پر کیا تبصرہ ہوتا ہے۔ تادم تحریر تو انہیں سانپ سونگھ گیا ہے کیونکہ سوائے معمول کی خبر کے اور کوئی تبصرہ دیکھنے کو نہیں ملا۔
اپنے گھناؤنے عزائم کی تکمیل کے لیے یہ لوگ کہاں تک جا سکتے ہیں؟ کس حد تک گر سکتے ہیں اب قوم کو اس کا اندازہ ہو جانا چاہیے اور یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ہم بُری طرح سازشیوں کے نرغے میں پھنسے ہیں۔ ہر نیا دن ایک بری خبر کے ساتھ طلوع ہوتا ہے اور ہم بے بسی سے اپنے لٹنے کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔
ان بچوں کے والدین کو ن ہیں؟ یہ بچے ان ظالموں کے ہاتھوں تک کیسے پہنچے اور کتنے عرصے سے یہ گھناؤنا دھندہ ’’انسانی حقوق اور آزادی‘‘ کی آڑ میں کھیلا جا رہا ہے۔ یہ معاملات بڑے غور طلب ہیں۔ میری تو ذمہ دار لوگوں سے درخواست ہے کہ اس کی تمام تفصیلات قوم کے سامنے لائی جائیں۔ خصوصاً این جی اوز مارکہ میڈیا جو دن رات باغیوں کی مظلومیت کے پھریرے اڑاتا رہتا ہے کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کس سازش کا شکار ہو رہے ہیں اور اپنے ’’ذرائع اطلاعات‘‘ کی تصدیق کر لینا چاہیے۔ آخر یہ ملکی سلامتی اور معصوم زندگیوں کا معاملہ ہے نجانے یہ انسانی درندے کب سے بچوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ یہ خبریں تو عرصے سے چل رہی تھیں کہ خودکش حملوں کے لیے جو بچے استعمال کئے جاتے ہیں ان کی باقاعدہ برین واشنگ ہوتی ہے انہیں مخصوص قسم کی نشہ آور ادویات دی جاتی ہیں اور ذہنی طور پر اس قابل بھی نہیں رہنے دیا جاتا کہ وہ غلط اور صحیح میں فرق کر سکیں۔ ان کے معصوم ذھنوں میں یہ بات راسخ کر دی جاتی ہے کہ وہ جو کچھ کرنے جا رہے ہیں وہی دراصل مقصد حیات ہے۔ بعینہ بلوچستان میں گرفتار ہونے والے بچوں کا معاملہ ہے ان کو بھی یہی کچھ بتایا اور سکھایا جاتا ہے۔ ان بچوں کے بیانات جو سنائے گئے ہیں ان میں ایسے ایسے حیرت انگیز انکشافات ہوئے کہ انسانی عقل ان شیطانوں کے کرتوت پر دنگ رہ جاتی ہے جو بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگا کر دراصل انسانیت کش پروگرام پر عمل پیرا ہیں اور یہ یقیناًکوئی غیر ملکی ایجنڈہ ہے۔ بلوچ کبھی بے غیرت نہیں ہو سکتا کبھی بے عزت نہیں ہو سکتا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ بلوچ کا واحد مسئلہ اس کی عزت اور غیرت کا تحفظ ہوتا ہے۔ مجھے تو ان این جی اوز پر بھی حیرانگی ہو رہی ہے جو بچوں کے حقوق کے نام پر ساری دنیا سے کروڑوں روپے کے فنڈز ہڑپ کر جاتے ہیں یا اپنے اتللوں تللوں میں لٹا دیتے ہیں کہ آخر انہیں ہوش کیوں نہیں آیا۔ اصولی طور پر تو ان ٹی وی اینکرز خواتین و حضرات اور ہیومن رائٹس ایکسپرٹس کو اس طرح کیمپ لگا کر احتجاج پر بیٹھنا چاہیے تھا جیسے کیمپ وہ (اپنی مرضی کے مطابق ہونے والے انسانی مظالم) پر لگاتے ہیں لیکن ظاہر ہے یہ غریب بے کس اور بے سہارا بچے جن کے والدین شاید انہیں دو وقت کی روٹی بھی ڈھنگ سے نہیں کھلا سکتے تھے تب ہی تو وہ ان درندوں کے آلہ کار بنے ہیں۔ ان بچوں کے لیے شاید ہمارے معزز اینکرز خواتین و حضرات اور این جی اوز بیگمات کے پاس وقت نہیں ہوگا۔ ان کی دلچسپی ان موضوعات میں نہیں جہاں پاکستان اور اس میں بسنے والے غریب اور محتاج پاکستانیوں کا استحصال ہو رہا ہے بلکہ وہ ان موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں جن سے پاکستان کو عالمی سطح پر رسوا کرکے اپنے ’’ڈونرز‘‘ کے سامنے اپنے نمبر بنائے جا سکیں۔ میں تو ان گمنام ہیروز کے ’’پروفیشنل ازم‘‘ کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا کر ان بچوں کا سراغ لگایا اور انہیں اپنی حفاظتی تحویل میں لیا اگر خدانخواستہ یہ گروپ قابو نہ آتا تو نجانے اب تک کتنے اور سانحے دیکھنے کو ملتے کیونکہ انسانی نیچر کے مطابق ان معصوم بچوں کی طرف کسی کا دھیان جا ہی نہیں سکتا کہ یہ اتنے گھناؤنے کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ اس مرحلے پر ایک اور اہم بات جس کا تذکرہ بعض طبائع نازک پر ضرور گراں گزرے گا کہ ہم لوگ اپنے ذاتی تعصبات میں اندھے ہو کر بسا اوقات ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو فوری طور پر بہت نقصان دہ ہوتی ہیں لیکن بعد میں غلط ثابت ہو جاتی ہیں ان بچوں نے جن دھماکوں کا اعتراف کیا ہے ان میں سے قریباً ہر دوسرے دھماکے کی ذمہ داری ہمارے وزیر داخلہ اور بڑے بڑے جفادری لیڈر، دانشور ایک مخصوص مسلک کے حامل گروپ پر ڈال کر ملک میں فرقہ وارانہ تعصبات کی آگ بھڑکانے کے مشن پر گامزن ہیں جبکہ یہ دھماکے بلوچستان کے علیحدگی پسند دہشت گردوں نے ان معصوم بچوں سے کروائے تھے۔ اگر ہم کچھ بولنے سے پہلے کچھ لمحے کے لیے سوچ لیا کریں تو کئی مسائل حل ہو جائیں گے۔ پاکستان پر عالمی دہشت گرد حملہ آور ہوئے ہیں۔ ملک کا ہر گلی کوچہ ان کا ٹارگٹ ہے جہاں انہیں ’’سافٹ ٹارگٹ‘‘ ملتا ہے وہاں زیادہ متحرک ہوتے ہیں جیسے کراچی، کوئٹہ اور فاٹا اور جہاں ان کے لیے رکاوٹیں زیادہ ہوں وہاں ان کی تخریب کاری کی رفتار کم ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ حکومت نے جاتے جاتے ’’متنازعہ‘‘ ہی سہی دہشت گردی ایکٹ پاس کر دیا ہے۔
حیرت ہوتی ہے عالمی ضمیر پر کہ وہ سب کچھ دیکھنے جاننے کے باوجو آج بھی حیربیار جیسے غداروں کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ ہر سال مارچ کے آخری دنوں میں یہ صاحب اپنے چند حواریوں کے ساتھ اپنے پرانے آقا کے حضور ’’ٹن ڈاؤننگ سٹریٹ‘‘ لندن پر پاکستان کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے اپنی جعلی مظلومیت کا راگ الاپتے ہیں جس میں ہمارے کچھ میڈیا پرسن بھی ان کے ساتھ ہی قوالی میں شریک ہو جاتے ہیں۔ کیا مناسب ہو گا کہ اس مرتبہ ’’ٹن ڈاؤننگ سٹریٹ‘‘ پر ان بچوں کو کھڑا کرکے عالمی ضمیر سے پوچھا جائے کہ ان کا کیا گناہ ہے؟ جو لوگ انہیں اپنے گھناؤنا مقاصد کے لیے آلہ کار بناتے ہیں وہ انسانیت کی سطح سے گر کر حیوانیت کی سطح پر اتر آتے ہیں۔ انہیں تو انسان سمجھنا ہی زیادتی ہے جب کہ وہ خود کو مظلوم اور آزادی پسند کہتے ہیں۔ ان بردہ فروشوں کو کس نے حق دیا ہے کہ وہ غیور بلوچوں کی نمائندگی کریں؟
0 comments: